فوجی عدالتوں میں سویلین ٹرائل کیخلاف انٹراکورٹ اپیلیں،103افراد کی معلومات جمعرات تک طلب
زیر حراست افراد میں سے کتنے بری ہوں گے، کتنوں کو چند ماہ اورکتنوں کو پانچ سال تک کی سزا ہو گی،سپریم کورٹ
ہوسکتا ہے ایک شخص کو چھ ماہ سزا ہو اوروہ ایک سال سے زیرحراست ہو،ہم لوگوں کے بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ چاہتے ہیں، جسٹس امین الدین خان
یہ وفاق کامعاملہ ہے اس میں صوبائی حکومتیں یا پرائیویٹ افرادکیسے متاثرہ فریق ہوسکتے ہیں، جسٹس شاہدوحید
کیس کی براہ راست کارروائی دکھانے کے حوالہ سے فیصلہ آئندہ سماعت پر کیا جائے گا، عدالت
103گرفتار افراد کے اہلخانہ میں 10سے20افراد عدالتی کارروائی دیکھنے کے لئے کمرہ عدالت میں آسکتے ہیں، ریمارکس
گزشتہ سماعت کے بعد 103افراد کاٹرائل ختم ہو گیاہے تاہم سپریم کورٹ کے فیصلے کے تناظر میں فیصلہ نہیں سنایا گیا، اٹارنی جنرل منصورعثمان اعوان
فوجی عدالت سے ملنے والی سزائے موت کی کنفرمیشن آرمی چیف نے کرنی ہے، اٹارنی جنرل کا موقف
9رکنی یا جن ججز نے پہلا فیصلہ دیا ان کے سواسپریم کورٹ کے موجود تمام ججز پر مشتمل لارجر بینچ بنا یا جائے،مدعا علیہان کے وکلاء بینچ کی تشکیل پر اعتراض
اسلام آباد( ویب نیوز)
سپریم کورٹ آف پاکستان نے اٹارنی جنرل آف پاکستان بیرسٹر منصورعثمان اعوان کو ہدایت کی ہے کہ وہ سانحہ 9مئی 2023کے گرفتار 103افراد کے حوالہ سے جمعرات تک معلومات فراہم کریں کہ ان میں سے کتنے بری ہوں گے، کتنوں کو چند ماہ اورکتنوں کو پانچ سال تک کی سزا ہو گی۔جبکہ جسٹس امین الدین خان نے کہا ہے کہ ہوسکتا ہے کہ ایک شخص کو چھ ماہ سزا ہو اوروہ ایک سال سے زیرحراست ہو،ہم لوگوں کے بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ چاہتے ہیں۔ جبکہ جسٹس شاہدوحید نے پرائیویٹ افراد اورصوبائی حکومتوں کی جانب سے نظرثانی درخواستیں دائر کرنے کے حوالہ سے سوال اٹھاتے ہوئے کہا ہے کہ یہ وفاق کامعاملہ ہے اس میں صوبائی حکومتیں یا پرائیویٹ افرادکیسے متاثرہ فریق ہوسکتے ہیں۔ جبکہ عدالت نے قراردیا ہے کہ کیس کی براہ راست کارروائی دکھانے کے حوالہ سے فیصلہ آئندہ سماعت پر کیا جائے گا۔ عدالت نے قراردیا ہے کہ 103گرفتار افراد کے اہلخانہ میں 10سے20افراد عدالتی کارروائی دیکھنے کے لئے کمرہ عدالت میں آسکتے ہیں۔جبکہ اٹارنی جنرل منصورعثمان اعوان نے عدالت کو بتایا کہ گزشتہ سماعت کے بعد 103افراد کاٹرائل ختم ہو گیاہے تاہم سپریم کورٹ کے فیصلے کے تناظر میں فیصلہ نہیں سنایا گیا، فوجی عدالت سے ملنے والی سزائے موت کی کنفرمیشن آرمی چیف نے کرنی ہے۔ جبکہ مدعا علیہان کے وکلاء کی جانب سے بینچ کی تشکیل پر اعتراض کرتے ہوئے 9رکنی یا جن ججز نے پہلا فیصلہ دیا ان کے سواسپریم کورٹ کے موجود تمام ججز پر مشتمل لارجر بینچ بنانے کی استدعا کی ہے۔ سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس سید حسن اظہر رضوی، جسٹس شاہد وحید، جسٹس مسرت ہلالی اورجسٹس عرفان سعادت خان پر مشتمل 6رکنی لارجر بینچ نے سپریم کورٹ کی جانب سے 9مئی سانحہ میں ملوث 103ملزمان کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کو غیر قانونی قراردیئے جانے کے خلاف دائر 45انٹراکورٹ اپیلوں پر سماعت کی۔ اپیلیں سیکرٹری وزارت قانو ن وانصاف حکومت پاکستان،اسلام آباد،وفاقی حکومت بوساطت وزارت دفاع ، راولپنڈی،وفاق پاکستان بوسا طت سیکرٹری داخلہ ،اسلام آباد،صوبہ پنجاب بوساطت سیکرٹری پنجاب، لاہور، صوبہ خیبر پختونخوا بوساطت چیف سیکرٹری،پشاور،صوبہ بلوچستان بوساطت چیف سیکرٹری سروسز اینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن کوئٹہ، شہدا فائونڈیشن بلوچستان بوساطت پیٹرن ان چیف جمال خان رئیسانی، اوردیگر کی جانب سے سابق چیف جسٹس آف پاکستان جواد سعید خواجہ، بیرسٹر چوہدری اعترازاحسن،جنید رزاق، کرامت علی، زمان خان وردگ، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن آف پاکستان اوردیگر کے خلاف دائر کی گئی ہیں۔فریقین کی جانب سے خواجہ حارث احمد،حامد خان ایڈووکیٹ، ،سلمان اکرم راجہ،عابد شاہد زبیری، عزیر کرامت بھنڈاری، فیصل صدیقی، محمد عثمان مرزا، خواجہ احمد حسین، شمائل احمد بٹ، سکندر بشیر مہمند، اجمل غفار طور ،ڈاکٹر یاسر امان خان اوردیگر بطور وکلا پیش ہوئے جبکہ اٹارنی جنرل بیرسٹر منصور عثمان اعوان اورایڈووکیٹ جنرل خیبرپختونخوا عدالتی نوٹس پر پیش ہوئے۔ سماعت کے آغاز پر درخواست گزار جسٹس(ر)جواد ایس خواجہ کے وکیل خواجہ احمد حسین نے بینچ کے سائز پر اعتراض عائد کردیا۔انہوں نے کہا کہ 103 ملزمان زیر حراست ہیں، ان کے اہل خانہ عدالتی کارروائی میں شامل ہونا چاہتے ہیں چنانچہ عدالت اہل خانہ کو سماعت دیکھنے کے لئے کمرہ عدالت میں آنے کی اجازت دی دے۔بیرسٹر چوہدری اعتراز احسن کا کہنا تھا کہ کمرہ عدالت میں اورگیلری میں بھی 103افراد کے اہلخانہ آسکتے ہیں۔ اس پر جسٹس امین الدین نے ریمارکس دیے کہ کمرہ عدالت بھرا ہوا ہے، انہیں کہاں بٹھائیں گے؟ عدالت آنے پر اعتراض نہیں ہے، ان کا معاملہ دیکھ لیتے ہیں، تجویز دیں کہ انہیں کیسے اکاموڈیٹ کرسکتے ہیں۔ لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن اورلاہور بار ایسوسی ایشن کی جانب سے پیش ہوتے ہوئے سینئر وکیل حامد خان ایڈووکیٹ نے بتایا کہ انہوں نے دونوں بارز کی جانب سے فریق بننے کے لئے 6،6درخواستیں دائر کی ہیں۔ جسٹس محمدعلی مظہر کا کہنا تھا کہ کیس کا فیصلہ پانچ رکنی بینچ نے کیا ہے۔ حامد خان کا کہنا تھا کہ بچنے والے تمام ججز پر مشتمل لارجر بینچ تشکیل دیا جائے۔ جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023کے تحت تین رکنی کمیٹی بینچز تشکیل دیتی ہے۔دوران سماعت سلمان اکرم راجہ نے لاہور سے ویڈیو لنک پر دلائل دیتے ہوئے اپیلوں کی سماعت کے لئے 8رکنی بینچ بنانے کی استدعا کی۔ جبکہ فیصل صدیقی ایڈووکیٹ نے پیش کر دلائل میں کہا کہ میری درخواستیںحکومت کی جانب سے پرائیویٹ وکلاء کی خدمات حاصل کرنے حوالہ سے ہیں۔ فیصل صدیقی کا کہنا تھا کہ جب حکومت کی جانب سے اٹارنی جنرل نے اپیلیں دائر کی ہیں تو پھر پرائیویٹ وکلاء پر حکومت کو پیسے ضائع نہیں کرنے چاہیں۔ جواد خواجہ کے وکیل کا کہنا تھا کہ بیچ چیف جسٹس اورتین رکنی کمیٹی سے درخواست کرے کہ یہ آئینی اورسیاسی اہمیت کا معاملہ ہے اس لئے درخواستوں کی سماعت کے لئے 8رکنی بینچ بنایا جائے۔ جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ اب انٹراکورٹ اپیلیں زیر سماعت ہیں، مین کیس کا فیصلہ ہوچکا ہے، ماضی میں جائیں، انٹراکورٹ اپیلوں کی سماعت پر فوکس کریں۔ جسٹس محمد علی مظہر نے جواد خواجہ کے وکیل خواجہ احمد حسین سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ کیاآپ نے چیف جسٹس یا کمیٹی کو لارجر بینچ بنانے کی درخواست کی تھی۔ اس پر خواجہ احمد حسین کا کہنا تھا کہ میں نے 9رکنی لارجر بینچ بنانے کی استدعا کی تھی۔ خواجہ احمد حسین کا کہنا تھا کہ عوام میں یہ تاثر نہیں جانا چاہیئے کہ اگر 9رکنی بینچ ہوتاتوفیصلہ کچھ اورہوتا۔ جسٹس امین الدین خان کا خواجہ احمد حسین سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ خود ہی چیزوںکے حوالہ سے قیاس آرائی نہ کریں۔ سماعت کے دوران خیبرپختونخوا حکومت نے فوجی عدالتوں میں سویلنز کا ٹرائل کالعدم قرار دینے کے خلاف دائر اپیلیں واپس لینے کی استدعا کر دی۔ خیبرپختونخوا حکومت کے وکیل ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل سید کوثر علی شاہ نے صوبائی کابینہ کی قرارداد عدالت میں پیش کر دی۔خیبرپختونخوا حکومت کے وکیل نے استدعا کی کہ وہ انٹرا کورٹ اپیلیں واپس لینا چاہتے ہیں۔اس پر جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ کابینہ قرارداد پر تو اپیلیں واپس نہیں کر سکتے، مناسب ہوگا کہ اپیلیں واپس لینے کے لیے باضابطہ درخواست دائر کریں۔جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ بینچ پر اعتراض ہے تو تین رکنی کمیٹی کے پاس اپلائی کریں۔ جسٹس امین الدین خان نے اٹارنی جنرل کو روسٹرم پر طلب کرتے ہوئے کہا کہ اٹارنی جنرل آئیں کام کی بات کرلیں۔ اٹارنی جنرل منصورعثمان اعوان نے عدالت کو بتایا کہ گزشتہ سماعت کے بعد 103افراد کو ٹرائل ختم ہو گیا تاہم سپریم کورٹ کے فیصلے کے تناظر میں فیصلہ نہیں سنایا گیا۔ جسٹس محمد علی مظہر نے سوال کیا کہ بری ہونے کی شرح کیا ہے۔ جسٹس سید حسن اظہر رضوی نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کے پاس کتنے لوگ ہیں۔ جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ آرڈر توبنالیئے ہوں گے ، انائونس نہیں کررہے۔ فیصل صدیقی کا کہنا تھا کہ بری کرنے کے حوالہ سے آرڈرز جاری کرنے کے حوالہ سے ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔ جسٹس امین الدین خان کا کہنا تھا کہ چوہدری اعتزازاحسن اور فیصل صدیقی عدالتی معاونین ہیں۔ جسٹس امین الدین خان کا کہنا تھا کہ دفعہ 426کے تحت عدالت کتنی سزا معطل کرسکتی ہے۔ اس پر اعتزازاحسن کا کہنا تھا کہ 3سے5سال کی مختصر سزا معطل کرسکتی ہے۔ جسٹس امین الدین خان کا کہنا تھا کہ ہم اپنے فیصلے میں مشروط کردیں گے کہ عدالتی فیصلے تک سزئوں کے خلاف اپیلیں دائر نہیں کی جائیں گی۔ جسٹس امین الدین خان کا کہنا تھا کہ ہوسکتا ہے کہ ایک شخص کو چھ ماہ سزا ہو اوروہ ایک سال سے زیرحراست ہو،ہم لوگوں کے بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ چاہتے ہیں۔ جسٹس محمد علی مظہر کا اتارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ متعلقہ حکام سے ہدایات لے لیں۔ جسٹس عرفان سعادت خان کا کہنا تھا کہ کوئی سمری بنا کر لے آئیں کہ یہ بری ہونے والے ہیں اور یہ مختصر سزا پانے والے ہیں۔ جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ پرسوں سماعت رکھ لیتے ہیں۔ اعتزازاحسن کا کہنا تھا کہ کنویننگ آفیسر نے فیصلہ جاری کرنا ہے اگر آرمی چیف نے کنوین کیا ہے تو وہ فیصلہ جاری کریں گے اوراگرکسی اورافسر نے کیا ہے توہ فیصلہ جاری کریں گے۔ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ سزائے موت کی کنفرمیشن آرمی چیف نے کرنی ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ 103سویلینز میں سے کتنے بری ہوسکتے ہیں اورکتنوں کا بری ہونے کااچھا کیس ہے۔ جسٹس امین الدین خان کا کہنا تھا کہ ہم نہیں چاہتے کہ نامکمل چیزیں آئیں۔ جسٹس سید حسن اظہر رضوی کا کہنا تھا کہ جن لوگوں کے خلاف مواد ہے ان کے حوالہ سے ہم نہیں کہہ رہے۔ اعتزازاحسن کا کہنا تھا کہ فیلڈ جنرل کورٹ مارشل سزاکی سفارش توکردیتی ہے لیکن ایک سال تک اس کی کنفرمیشن نہیں آتی۔ جسٹس امین الدین خان نے وکلاء سے سوال کیا کہ فریق بننے کی درخواستوں پر کسی کو اعتراض تونہیں۔اس پر کسی نے اعتراض نہیں کیا۔ جسٹس سید حسن اظہر رضوی کا کہنا تھا کہ میراخیال ہے براہ راست تونہ ہی دکھائیں۔ جسٹس شاہد وحید کا کہنا تھا کہ یہ وفاق کامعاملہ ہے،کیسے پرائیویٹ پرسنز اورصوبائی حکومتوں کی درخواستیں آئی ہیں،یہ وفاقی حکومت دائر کرسکتی ہے، پرائیویٹ پرسنز اورصوبائی حکومتوں کا کیا کام ہے۔ جسٹس امین الدین خان کاکہنا تھا کیس کی براہ راست کاروائی دکھانے کے حوالہ سے درخواست جمعرات کے روز سنیں گے۔ بعد ازاں عدالت نے اٹارنی جنرل سے زیر حراست 103 افراد میں سے بریت کے اہل افراد کے حوالے سے تفصیلات طلب کرلیں۔جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ بتائیں کتنے ملزمان کو کتنی سزائیں ہوئی ہیں؟ یہ بھی بتائیں کتنے ملزمان بری ہوئے ہیں؟ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ٹرائل مکمل ہو چکا ہے لیکن عدالت نے حتمی فیصلے سے روکا تھا، عدالت نے کہا آپ ہدایات لے لیں۔عدالت قراردیا ہے کہ اس حوالہ سے معاونت کی جائے کہ پرائیویٹ پرسنز اور صوبائی حکومتیں کیسے اپیلیں دائر کرسکتی ہیں۔ بعدازاں عدالت نے فریقین کو نوٹسز جاتے کرتے ہوئے درخواستوں پر مزید سماعت جمعرات (28 )مارچ تک ملتوی کردی۔ ZS
#/S