مجبوریوں پر نہیں بلکہ آئین پر ملک چلے گا۔ہم کل کیس ختم کرنے کی کوشش کریں گے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ
 پی ٹی آئی کے پاس سب کچھ ہے بس کاغذ کا ٹکڑا نہیں ہے،جسٹس سید منصور علی شاہ  
عوام کے بنیادی حقوق کے تحفظ کے حوالہ سے سپریم کورٹ کو کون ازخود نوٹس لینے سے روک رہا ہے ؟ جسٹس اطہر من اللہ
 سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی ایڈووکیٹ اور پی ٹی ٹی خواتین ونگ کی صدر کنول شوزب کے وکیل سلمان اکرم راجہ،ا سپیکر خیبر پختونخوااسمبلی کے وکیل اسد جان درانی اور اور خیبرپختونخوا حکومت کے وکیل ایڈووکیٹ جنرل کے پی شاہ فیصل اتمانخیل نے دلائل مکمل کر لیے
 الیکشن کمیشن آف پاکستان کے وکیل سکندر بشیر مہمند ، مخصوص نشستوں پر اضافی نوٹیفائی ہونے والی ارکان اسمبلی کے وکیل مخدوم علی خان، پاکستان پیپلز پارٹی کے کیل سینیٹر فاروق حمید نائیک اور عدالتی نوٹس پر اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان  آج (منگل کو) اپنے دلائل دیں گے

اسلام آباد( ویب  نیوز)

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ اگر پی ٹی آئی آج بھی برقرار ہے توکیوں آزاد ارکان پی ٹی آئی میں شامل نہیں ہوئے۔ جب امیدوارآزاد طور پر جیتے تو کون سی چیز انہیں پی ٹی آئی میں شمولیت سے روک رہی تھی۔ ہم آئین بنانے والوں سے زیادہ ہوشیا رنہیں ہو گئے، ملک کو پٹڑی پر لاتے ہیں پھر کوئی آجاتا ہے، ہمارا آئین ترقی پسند ہی ہے۔ پاکستان کے جھنڈے میں سفید رنگ اقلیتوں کی نمائندگی کرتا ہے، بابائے قوم قائد اعظم محمد جناح نے فرمایا تھا کہ اقلیتوں کو مساوی حقوق حاصل ہوں گے،سنی اتحاد کونسل نے اپنے منشور میں ان کو فارغ کردیا۔ مجبوریوںپر نہیں بلکہ آئین پر ملک چلے گا۔ہم کل کیس ختم کرنے کی کوشش کریں گے۔ جبکہ سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس سید منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ پی ٹی آئی کے پاس سب کچھ ہے بس کاغذ کا ٹکڑا نہیں ہے، اس طرح تونہ کریں، پراسیس کاغلط استعمال نہ کریں۔ کیا مکمل انصاف ہوامیں ہورہا ہوگا، جذباتی تقریر ایک الگ بات ہے اورقانونی دلائل اوربات ہے۔جسٹس منیب اخترنے ریمارکس دیئے ہیں کہ پی ٹی آئی نے غیر معمولی حالات میں الیکشن لڑا۔ یہ پروسیجر کے مسائل ہیں۔ جسٹس یحییٰ خان آفریدی نے ریمارکس دیئے ہیں کہ سنی اتحاد کونسل کا کون سابنیادی حق مجروح ہورہا ہے، جب ووٹر ڈال رہا تھا تو کیا اُس کو معلوم تھا کہ نام نہاد آزاد امیدوار سنی اتحاد کونسل میں شامل ہوگا۔  جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیئے ہیں کہ جب الیکشن کمیشن پہلے مخصوص نشستیں تقسیم کررہا تھا اس وقت ہی اسے ساری نشستیں تقسیم کردینی چاہیں تھیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئے ہیں کہ نہ پی ٹی آئی اور نہ امیدوار ہمارے سامنے آئے ہیں۔ اگر امیدواروں کو پی ٹی آئی کے امیدوار قراردے دیا جائے توپھر سنی اتحاد کونسل کہاں کھڑی ہو گی۔ جسٹس محمد علی مظہرنے ریمارکس دیئے ہیں کہ اگرآزاد جیتنے والے پی ٹی آئی کے لوگ تھے توانہیں سنی اتحاد کونسل میں شامل ہونے کی ضرورت نہیں تھی وہ لڑتے اور کہتے کہ ہمیں مخصوص نشستیں دیں، پی ٹی آئی کا کیس توہے ہی نہیں۔ جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ کیا ملک کوکبھی آئین کے مطابق چلایا گیا ہے۔ عوام کے بنیادی حقوق کے تحفظ کے حوالہ سے سپریم کورٹ کو کون ازخود نوٹس لینے سے روک رہا ہے۔ سپریم کورٹ فیصلے کی غلط تشریح کرتے ہوئے الیکشن کمیشن نے 2فروری کو پی ٹی آئی امیدواروں کو آزاد قراردیا۔دوران سماعت سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی ایڈووکیٹ اور پاکستان تحریک انصاف خواتین ونگ کی صدر کنول شوزب کے وکیل سلمان اکرم راجہ،ا سپیکر خیبر پختونخوااسمبلی کے وکیل اسد جان درانی اور اور خیبرپختونخوا حکومت کے وکیل ایڈووکیٹ جنرل کے پی شاہ فیصل اتمانخیل نے دلائل مکمل کر لیے جبکہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے وکیل سکندر بشیر مہمند ، مخصوص نشستوں پر اضافی نوٹیفائی ہوانے والی ارکان اسمبلی کے وکیل مخدوم علی خان، پاکستان پیپلز پارٹی کے کیل سینیٹر فاروق حمید نائیک اور عدالتی نوٹس پر اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان آج  (منگل)کے روز اپنے دلائل دیں گے۔ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میںجسٹس سید منصور علی شاہ ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ خان آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر،جسٹس عائشہ اے ملک، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس سید حسن اظہر رضوی، جسٹس شاہد وحید، جسٹس عرفان سعادت خان اور جسٹس نعیم اختر فغان پر مشتمل 13 رکنی فل کورٹ نے سنی اتحاد کونسل ، اسپیکر خیبر پختونخوااسمبلی، حکومت خیبر پختونخوااور پی ٹی آئی خواتین ونگ کی صدر کنول شوزب کی جانب سے الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستیں الاٹ نہ کرنے کے حوالے سے دائر 10درخواستوں پر سماعت۔ کیس کی سماعت براہ راست سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر دکھائی گئی۔درخواستوں میں لیکشن کمیشن آف پاکستان، شازیہ تہماش خان، ایمن جلیل جان، مہرسلطانہ اوردیگر کوفریق بنایا گیا ہے۔اٹارنی جنرل منصورعثمان اعوان، ایڈووکیٹ جنرل پنجاب خالد اسحاق، ایڈووکیٹ جنرل خیبرپختونخوا شاہ فیصل اتمانخیل، سینیٹر فاروق حمید نائیک، مخدوم علی خان، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر بیرسٹر محمد شہزادشوکت، سینیٹر حامد خان ایڈووکیٹ،الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر بشیر مہمند، ڈی جی لاء الیکشن کمیشن محمد ارشد اوردیگر سینئر وکلاء بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے۔ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان، کنول شوزب،سینیٹر زرقا سہروردی تیمور، فیصل جاوید خان اوردیگر رہنما بھی کمرہ عدالت میں موجودتھے۔ کیس کی سماعت شروع ہوئی تو سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی ایڈووکیٹ نے دلائل کاآغاز کیا۔فیصل صدیقی کا کہنا تھا کہ میں نے اڑھائی صفحات پر مشتمل معروضات لکھی ہیں تاکہ جلد ازجلد دلائل ختم کرسکوں۔ فیصل صدیقی کا کہنا تھا کہ جسٹس منیب اخترنے اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ آئین زندہ دستاویز ہے۔ چیف جسٹس کا کہناتھا کہ ہم کسی کی تعریف کے پابند نہیں ، ہم آئین کے پابند ہیںکہ وہ کیا کہتا ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہناتھا کہ جن آزادلوگوں نے سنی اتحاد کونسل کو جوائن کیا کیا وہ سیٹیں جیتی گئی ہیں یا یہ لوگ شامل ہوئے ہیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہناتھا کہ کیا مخصوص نشستیں ان لوگوں کو دیں جن لوگوں نے الیکشن ہی نہیں لڑا۔ جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ پارٹی کی جانب سے سیٹ جیتنا ضروری ہے۔ جسٹس امین الدین خان کا کہناتھا کہ کیاآزاد نئی پارٹی بناسکتے ہیں۔ اس پر فیصل صدیقی کا کہناتھا کہ اگر تین دن میں آزاد ارکان پارٹی بنا کر رجسٹر کروالیں تو ایسا ہوسکتا ہے۔ جسٹس عرفان سعادت خان کا کہنا تھا کہ سنی اتحاد کونسل نے کوئی سیٹ نہیں لی اور نہ الیکشن لڑا۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کیا وکیل آئین سے نشستیں حاصل کرنے اور جیتنے کے الفاظ حذف کروانا چاہتے ہیں۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہناتھا کہ نشان واپس لیا گیا اس لئے وہ کنفیوز تھے اور لسٹڈ پارٹی کا مشترکہ انتخابی نشان ہوسکتا تھا جس کے تحت وہ الیکشن لڑتے، الیکشن کمیشن نے دونوں کو لسٹڈ پارٹیز تسلم کرتا ہے تاہم اگر مشترکہ نشان نہیں تھا تو پھر کیسے وہ جیتے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اگر پی ٹی آئی آج بھی برقرار ہے توکیوں آزاد ارکان پی ٹی آئی میں شامل نہیں ہوئے۔ جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ جب کاغذات نامزدگی جمع کروائے تو وہ کہہ رہے تھے کہ ہم پی ٹی آئی ممبرز ہیں، متناسب نمائندگی کے تحت تمام پارٹیوں کو ان کی جیتی ہوئی سیٹوں کے مطابق مخصوص نشستیں الاٹ کی جائیں گی، کیا الیکشن کمیشن اپنی سہولت کے لئے آزاد ارکان کی تعریف کرے گا، کیا الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے تحت تعریف کی جو کہ خطرناک بات ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم سب جانتے ہیں کیا ہوا۔جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہناتھا کہ پارٹی الیکشن نہیں لڑتی بلکہ امیدوار الیکشن لڑتے ہیں، الیکشن کمیشن کے پاس کہاں سے اختیار آیا کہ وہ امیدوار اور پارٹی کے درمیان سرٹیفیکیٹ کے معاملہ پر فیصلہ کرے، جس کو پارٹی نے سرٹیفکیٹ دیا وہ پارٹی امیدوار ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سنی اتحاد کونسل کے کیس کو پیش یا پی ٹی آئی کے، یہ مفادات کاٹکرائو ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم آئین کی شق کی تشریح کررہے ہیں یہ نہیں سن رہے کہ الیکشن کمیشن نے زیادتی کی ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ تین روز کے اندر آزاد ارکان نے سیاسی جماعتوں میں شمولیت اختیار کرنی ہے۔ چیف جسٹس کا فیصل صدیقی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ نے اپنا کیس خود خراب کیا ہے، پہلے پی ٹی آئی نظریاتی کو جوائنکیا اور پھر سنی اتحاد کونسل میں شامل ہوئے۔ چیف جسٹس کا فیصل صدیقی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ سیاسی باتیں نہ کریں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ججز نے استعفے بھی دیئے ہیں اور پی سی اوکا حلف اٹھانے سے انکار بھی کیا ہے، جب آپ کہتے ہیں پی ٹی آئی توآپ کا کیس نہیں، آپ سنی اتحاد کونسل ہیں۔ چیف جسٹس نے فیصل صدیقی سے سوال کیا کہ آپ کی پارٹی کا انتخابی نشان ہے۔اس پر فیصل صدیقی کا کہناتھا کہ گھوڑا انتخابی نشان ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ رولز آئین کو کٹرول نہیں کرتے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آئین یہ کہتا ہے کہ اگر 90فیصد آزاد امیدوار جیتے ہیں تو مخصوص نشستیں 10فیصد نشستیں جیتنے والی پارٹیوں کو دی جائیں گی ، ملک کی دھجیاں اڑادی گئی ہی کیونکہ آئین پر عمل نہیں ہوا۔چیف جسٹس کا فیصل صدیقی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ جاکر آئین تبدیل کرلیں۔ جسٹس منیب اخترکاکہنا تھا کہ پی ٹی آئی نے غیر معمولی حالات میں الیکشن لڑا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہمارے آئین کو بنے 50سال ہوئے ہیں اس کے ساتھ حشر کیا ہوا، برطانیہ کاغیر تحریری آئین ہے جو ہزاروں سال پرانا ہے، امریکہ کاآئین بھی صدیوں پرانا ہے،میاں رضا ربانی کی سربراہی میں کمیٹی نے 18ویں ترمیم میں پورے آئین کواووہال کیا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم آئین بنانے والوں سے زیادہ ہوشیا رنہیں ہو گئے، ملک کو پٹڑی پر لاتے ہیں پھر کوئی آجاتا ہے، ہمارا آئین ترقی پسند ہی ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ یہ لوگوں اوران کے ووٹ کے حوالہ سے معاملہ ہے، جو اس مرتبہ ہوا وہ 2018میں ہوا تھا، حقیقت سب کو معلوم ہے،کیا غلط کام کرنے والوں کو کام جاری رکھنے دیا جائے، جو پریس کانفرنس نہیں کرتے تھے ان کو اٹھا لیا جاتا تھا، کیا یہ عدالت اپنی آنکھیں بند کرلے، یہ سیاسی جماعت کا بھی نہیں بلکہ عام آدمی کا مسئلہ ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہنا تھا کہ نہ پی ٹی آئی اور نہ امیدوار ہمارے سامنے آئے ہیں۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ جب ضرورت ہوتی ہے توآتے ہیں، جب ماضی میں تین رکنی بینچ تھا اور صدر پی ٹی آئی سے تعلق رکھتے تھے ، کیا صدر نے تاریخ دی، کیا انتخابات ہوگئے، ہم نے انتخابات کروائے، انگلیاں اٹھانا اور باہر بڑے شوکرنا آسان ہے، لاہور ہائی کورٹ نے انتخابات رکوانے کی کوشش کی، پی ٹی آئی درخواست گزار تھی ، نام دیکھ لیں کون پی ٹی آئی رہنما درخواست گزار تھے، ہم نے تونہیں کہا تھا کہ پی ٹی آئی انٹراپارٹی انتخابات نہ کروائے، الیکشن کمیشن نے کہا کہ تھا کہ پارٹی انتخابات کروالیں اُس وقت عمران خان وزیر اعظم تھے، یا توکہیں کہ پاکستانی قانونی کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کے 91میں سے 3عہدیدار منتخب ہوئے ، آئین پر چلیں سب چیزیں ٹھیک ہوجائیں گی۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سینئر وکیل حامد خان نے بھی کبھی یاددہانی نہیں کروائی کہ انتخابی نشان واپس لینے کے حوالہ سے پی ٹی آئی کی نظرثانی درخواست سپریم کورٹ میں زیر التوا ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہنا تھا کہ کیا آزاد ارکان کو آرٹیکل 62اور63کے ٹیسٹ سے گزرنا ہوگا۔ اس پر فیصل صدیقی کا کہنا تھا کہ نہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ زیادہ ترجنگیں پارٹیوں کے اندر ہوتی ہیں، مختلف دھڑے ایک دوسرے سے زیادہ نمبرز کرنا چاہتے ہیں۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ مخصوص نشستوں پر امیدواروںکی سکروٹنی آئین کے آرٹیکل 62کے تحت ہی ہو گی۔ چیف جسٹس کافیصل صدیقی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ سکروٹنی پراسیس کا آئین میں کہاں لکھا ہے وہ دکھا دیں۔ جسٹس محمد علی مظہر کا کہناتھا کہ اگر پی ٹی آئی کو ووٹ ملے تو کیوں پی ٹی آئی ووٹرز کو سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار کرکے محروم کیا گیا، اگرآزاد جیتنے والے پی ٹی آئی کے لوگ تھے توانہیں سنی اتحاد کونسل میں شامل ہونے کی ضرورت نہیں تھی وہ لڑتے اور کہتے کہ ہمیں مخصوص نشستیں دیں، پی ٹی آئی کا کیس توہے ہی نہیں۔ جسٹس عائشہ اے ملک کا کہنا تھا کہ آپ نے الیکشن نہیں لڑا آپ کو کیوں مخصوص نشستیں الاٹ کی جائیں، اگر کوئی سیاسی جماعت الیکشن لڑتی ہے اورساری نشستیں ہار جاتی ہے توکیا آزاد امیدواروں کی شمولیت سے مخصوص نشستیں الاٹ ہوسکتی ہیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہناتھا کہ وکیل تررقی پسند نہیں بلکہ خطرناک تشریح کررہے ہیں ، راتوں رات بننے والی پارٹی کو مخصوص نشستیں دلواناچاہتے ہیں نہ کہ اُس پارٹی کو جس کولوگوں نے ووٹ دیئے ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سیاسی تقریر کرنی ہے توباہر جاکرکریں۔ چیف جسٹس کا کہناتھا کہ اگر دودرخواستیں ہمارے سامنے ہوں اورایک کہے کہ یہ سنی اتحاد کونسل کے ممبران ہیں اور دوسرا کہے کہ یہ پی ٹی آئی ممبران ہیں توکیا ہم ٹا س کے زریعہ فیصلہ کریں۔ جسٹس امین الدین خان کا کہنا تھا کہ مخصوص نشستوں کے لئے فہرستیں الیکشن سے پہلے دینی ہیں۔ فیصل صدیقی کا کہنا تھا کہ فہرستیں الیکشن سے قبل اوربعد میں بھی جمع کروائی جاسکتی ہیں۔ چیف جسٹس کا فیصل صدیقی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ نے اپنے لئے خود مسئلہ کھڑا کیا ہے۔ جسٹس منیب اخترکاکہنا تھا کہ کیا پی ٹی آئی نے مخصوص نشستوں کی فہرست دی تھی۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہناتھا کہ اگر امیدواروں کو پی ٹی آئی کے امیدوار قراردے دیا جائے توپھر سنی اتحاد کونسل کہاں کھڑی ہو گی۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ سنی اتحاد کونسل نے الیکشن سے قبل کوئی فہرست ہی نہیں تواس کو مسترد کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ کیا الیکشن کمیشن کو مقررہ تاریخ کے دوران کوئی لسٹ فراہم کی۔ اس پر فیصل صدیقی کا کہنا تھا کہ نہیں فراہم کی۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کا کہنا تھا کہ اگر آپ سیاسی جماعت نہیں تو کیا متناسب نمائندگی کے اصول پر عمل ہو گایا نشستیں خالی رکھی جائیں گی، جونشستیں جیتی ہیں اسی کے تناسب سے مخصوص سیٹیں ملیں گی۔ فیصل صدیقی کا کہنا تھا کہ قانون کے مطابق فیصلہ ہو گا۔جسٹس سید منصورعلی شاہ کا فیصل صدیقی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ فیصل صاحب! آپ اِدھر اُدھر جارہے ہیں، اگر سیٹیں متناسب نمائندگی کے بعد بچ جاتی ہیں تووہ کہاں جائیں گی۔ جسٹس منیب اخترکاکہنا تھا کہ یہ پروسیجر کے مسائل ہیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کا فیصل صدیقی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ سلمان اکرم راجہ آپ کو مان ہی نہیں رہے  وہ کہہ رہے ہیں کہ میں اس پارٹی کا ہوں ہی نہیں، نہ ہی امیدوارہمارے سامنے آئے۔ اس پر فیصل صدیقی کا کہنا تھا کہ آج سلمان اکرم راجہ نے مجھے مان لیاہے۔ فیصل صدیقی کا کہنا تھا کہ تین دن کاوقت دوبارہ دیا جاسکتا ہے کہ آزا د امیدوار کسی جماعت میں شامل ہوں۔ فیصل صدیقی کا کہنا تھا کہ اگر پارٹیوں میں مخصوص نشستیں تقسیم کے بعد بچ جاتی ہیں توپھر وہ خالی رہیں گی۔ جسٹس امین الدین خان کا کہنا تھا کہ جب الیکشن کمیشن پہلے مخصوص نشستیں تقسیم کررہا تھا اس وقت ہی اسے ساری نشستیں تقسیم کردینی چاہیں تھیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہر پارٹی کا منشور ہے، کیاآپ کی پارٹی کامنشور ہے، کیا دونوں پارٹیوں کا منشور ایک ہی جیسا ہے، کیا یہ پی ٹی آئی کے امیدوار ہیں یا آپ کے ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ پاکستان کے جھنڈے میں سفید رنگ اقلیتوں کی نمائندگی کرتا ہے، بابائے قوم قائد اعظم محمد جناح نے فرمایا تھا کہ اقلیتوں کو مساوی حقوق حاصل ہوں گے،سنی اتحاد کونسل نے اپنے منشور میں ان کو فارغ کردیا۔ جسٹس یحییٰ خان آفریدی کا کہنا تھا کہ سنی اتحاد کونسل کا کون سابنیادی حق مجروح ہورہا ہے، جب ووٹر ڈال رہا تھا تو کیا اُس کو معلوم تھا کہ نام نہاد آزاد امیدوار سنی اتحاد کونسل میں شامل ہوگا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہناتھا کہ آج اگر ووٹ ہوں توکیا پی ٹی آئی امیدواروں کے مقابلہ میں سنی اتحاد کونسل کے امیدواروں کو ووٹ ملے گا، اگر سنی اتحاد کونسل اور پی آئی ایک دوسرے میں ضم ہوجائیں توبھی معاملہ حل ہوجائے گا۔ جسٹس سید حسن اظہر رضوی کا کہنا تھا کہ کیا 87حلقوں کے ووٹرز میں کسی نے امیدوار کے سنی اتحاد کونسل میں شامل پر کوئی مظاہرہ کیا یا کوئی آرٹیکل لکھا۔ جسٹس امین الدین خان کاکہنا تھا کہ جن لوگوں نے شمولیت اختیار کی کیاان میں کوئی غیر مسلم بھی تھا۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ کیا غیر مسلم رکن نہ ہونے کے حوالہ سے کبھی الیکشن کمیشن نے سنی اتحاد کونسل کو کبھی کوئی نوٹس جاری کیا۔ جسٹس اطہر من اللہ کاکہنا تھا کہ ایوان کو غیر مکمل نہیں چھوڑا جاسکتا، ایوان کومکمل کرنے کی ذمہ داری الیکشن کمیشن کی ہے، ووٹرز کے حقوق سب سے زیادہ اہم ہیں متناسب نمائندگی کے اصول کے تحت الیکشن کمیشن کو مخصوص نشستیں الاٹ کرنا چاہیں تھیں، جبکہ الیکشن کمیشن نے مخالفنانہ پوزیشن اختیار کی۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ بڑی یا چھوٹی تصویر کی نہیں بلکہ آئین کی بات کریں، جسٹس جما ل خان مندوخیل کا کہنا تھا کہ بعض اوقات بڑی تصویر بھی نظریہ ضرورت کے تحت ہوتی ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ کیا ملک کوکبھی آئین کے مطابق چلایا گیا ہے۔ فیصل صدیقی کے دلائل کے بعد اسپیکر خیبر پختونخوااسمبلی کے وکیل اسد جان درانی اور اور خیبرپختونخوا حکومت کے وکیل ایڈووکیٹ جنرل کے پی شاہ فیصل اتمانخیل نے دلائل دیئے۔ جسٹس منصورعلی شاہ کا کہنا تھا کہ اسپیکر کے پی اور حکومت خیبر پختونخوا کی 6درخواستوں میں درپیش مسئلہ موجودہ کیس کے فیصلہ سے حل ہوجائے گا۔ جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ جب تک مین مسئلہ حل نہیں ہوتا امیدواروں نے حلف تولینا تھا۔ اس کے بعد کنول شوزب کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے دلائل کاآغاز کیا۔ سلمان اکرم راجہ کاکہناتھا کہ درخواست گزار پی ٹی آئی امیدوار ہیں ، مخصوص نشستوں کی فہرست فراہم کی گئی تھی جوواپس کردی گئی۔ سلمان اکرم راجہ کاکہناتھا کہ اگر پی ٹی آئی یا سنی اتحاد کونسل کو الیکشن کمیشن مخصوص نشستیں الاٹ کرتا تودرخواست گزار امیدوار ہوتیں۔ دوران سماعت بینچ کی جانب سے استفسار پر سلمان اکرم راجہ نے مخصوص نشستوں کی فہرست فراہم کی جس میں صرف خواتین کے نام تھے۔ جسٹس سید منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ اس فہرست میں توصرف دونامہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف پی ٹی آئی کی شکایت کیا ہے مختصر بتادیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہناتھاکہ پی ٹی آئی کے نشستیں جیتنے کے بعد آپ مخصوص نشستوں کا دعویٰ کررہے ہیں۔ سلمان اکرم راجہ کا کہناتھا کہ یا مجھے پی ٹی آئی کو جوائن کرنے کی اجازت دی جائے یا سنی اتحا د کونسل کو جوائن کرنے کی اجازت دی جائے۔جسٹس سید منصورعلی شاہ کا کہناتھا کہ کیا الیکشن کمیشن کافیصلہ کنول شوزب نے چیلنج کیا،پی ٹی آئی کو الیکشن کمیشن نے باہر پھینک دیا آپ یہ فیصلہ چیلنج کرسکتے تھے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ جب آرڈر ہمارے سامنے نہیں تو دلائل دینے کی کیسے اجازت دیں، اس میں پی ٹی آئی کہاں ہے۔جسٹس عائشہ اے ملک کاکہنا تھا کہ کیا وہ آرڈر ہمارے سامنے ہے، آپ نے الیکشن نہیں لڑااس لئے الیکشن کمیشن کافیصلہ لاگو نہیں ہوتا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ کیا درخواست سنی اتحاد کونسل کی لسٹ میں ہیں۔ جسٹس سید منصور علی شاہ کاکہنا تھا کہ پی ٹی آئی کے پاس سب کچھ ہے بس کاغذ کا ٹکڑا نہیں ہے، اس طرح تونہ کریں، پراسیس کاغلط استعمال نہ کریں۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کاکہنا تھا کہ اگر سنی اتحاد کونسل کی فہرست میں نام ہے توپھر یہ فیصل صدیقی کاکیس ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہناتھا کہ یہ پی ٹی آئی کاکیس ہی نہیں بلکہ یہ سنی اتحاد کونسل کاکیس ہے۔ چیف جسٹس کا سلمان اکرم راجہ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ توفیصل صدیقی کا کیس تباہ کررہے ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اتنے وکیل ہیں اوریہ ایڈوائس سیاسی جماعت کومل رہی ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ ہم نے ہر غیر متعلقہ معاملے میں ازخودنوٹس لیاہے،8فروری کا کیس زیادہ اہم ہے۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کا کہنا تھا کہ سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کی فہرست میں نام دکھادیں، پی ٹی آئی والے کیوں ہمارے سامنے نہیں آئے وہ کہتے ہیں کہ ہم نے الیکشن جیتے ہیں۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 203کے تحت ویسے ہی آپ باہر ہیں۔ سلمان اکرم راجہ کاکہناتھا کہ لاہور ہائی کورٹ مخصوص نشستوں کی فہرستوں کامعاملہ الیکشن کمیشن کو بھجوادیا تھا۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ہائی کورٹ فیصلے کے خلاف رجسٹرار سپریم کورٹ کے انتظامی حکم کے خلاف آپ اپیل دائر کرسکتے تھے۔ سلمان اکرم راجہ کاکہناتھا کہ رجسٹرار کے فیصلے کے خلاف چیمبر اپیل دائر نہیںکی۔ جسٹس سیدمنصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ کیا دبائو تھا کہ اپیل دائر نہیں کی، اپیل نہیں کی تومسئلہ ہی ختم ہو گیا اورلسٹ ختم ہو گئی۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہناتھا کہ آپ بھی چیمبر اپیل کرسکتے ہیں۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ عوام کے بنیادی حقوق کے تحفظ کے حوالہ سے سپریم کورٹ کو کون ازخود نوٹس لینے سے روک رہا ہے۔ جسٹس یحییٰ آفریدی کا کہنا تھا کہ بطور پی ٹی آئی امیدوار معاملہ ختم،اب سنی اتحاد کونسل کامعاملہ ہے، کیا مخصوص سیٹ کے لئے سنی اتحاد کونسل نے اِس خاتون سے رابطہ کیاہے۔ اس پر فیصلہ صدیقی کا کہنا تھا کہ مجھے اس حوالہ سے ہدایات لینا ہوں گی۔ جسٹس یحییٰ آفریدی کاکہنا تھا کہ اس طرح توکوئی بھی خاتون آکر کہہ سکتی ہے کہ میں امیدوارہوں۔ چیف جسٹس کاسلمان اکرم راجہ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ فیصل صدیقی کا کیس خراب کررہے ہیں، مزید دلائل کے لئے کتنا وقت لیں گے۔ اس پر سلمان اکرم راجہ کاکہنا تھا کہ 1گھنٹہ 20منٹ۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اگرآپ گھنٹوں لگائیں گے توپھر ہم آپ کونہیں سنیں گے، ہم آپ کا ہی کیس نہیں سنیں گے، ہزاروں کیسز سپریم کورٹ میں ہیں اُ ن لوگوں پر رحم کریں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہناتھا کہ آپ چاہتے ہیں کہ سنی اتحاد کونسل آپ کو امیدواربنالے۔سید منصورعلی شاہ کا سلمان اکرم راجہ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہناتھا کہ آپ کادل پی ٹی آئی میں بحث سنی اتحاد کونسل کی کررہے ہیں۔جسٹس اطہر من اللہ کا کہناتھا کہ اپنی مجبوری بتادیںکہ ایک پارٹی سے الیکشن لڑ اورپھر ایک شخص کو جوائن کرلیا۔ چیف جسٹس کا کہناتھا کہ کیاآپ مجبوریوں پر چلیں گے یاآئین پر چلیں گے، مجبوریوںپر نہیں بلکہ آئین پر ملک چلے گا۔جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہناتھا کہ کیا ہرسیاسی جماعت کوحق حاصل ہے کہ آزاد اُس میں شامل ہوں تومخصوص نشستیں اسے الاٹ کی جائیں۔جسٹس اطہر من اللہ کاکہنا تھا کہ سلمان اکرم راجہ کوواضح مئوقف اپنانا ہوگا کہ 87ارکان نے آزاد الیکشن لڑا یاپی ٹی آئی امیدواروں کے طور پر الیکشن لڑا، اگر ہم آئین کے آرٹیکل184-3کے تحت ازخود نوٹس نہیں لیں گے توعوام کے حقوق متاثر ہوں گے۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آئین لوگوں کے منتخب نمائندوں نے لوگوں کے لئے بنایا ہے، آئین عام کتاب ہے اس کو کوئی بھی پڑھ کرسمجھ سکتا ہے، سیدھا سادہ آئین ہے۔چیف جسٹس کا کہناتھا کہ اگر فلسفہ کی بات کررہے ہیں توہ میں نہیں لکھوں گا۔جسٹس یحییٰ آفریدی کا کہناھتا کہ کیا پی ٹی آئی نے کسی میکنزم پرعمل کیاکہ سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار کرنی ہے۔ اس پر جسٹس اطہر من اللہ سلماناکرم راجہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہنا تھاکہ راجہ صاحب! سچ کہہ دیئجئے گا، مجھے سمجھ نہیں آتا کہ کیوں ہرکسی کے لئے سچ بولنا خطرناک ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہناتھا کہ اگر ایک جماعت کاامیدوار دوسر ی جماعت میںجائے گاتوڈیفیکشن کلاز لاگو ہوگی۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ جب امیدوارآزاد طور پر جیتے تو کون سی چیز انہیں پی ٹی آئی میں شمولیت سے روک رہی تھی۔چیف جسٹس کا کہناسلمان اکرم راجہ کومخاطب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ سپریم کورٹ گئے ، ایسی لوز بال نہ کھلیں ، بتائیں کہاں سپریم کورٹ گئے، رجسٹرارآفس عدالتی اختیارات استعمال نہیں کرتا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہناتھا کہ اگر سیٹیں لینا نہیں چاہیں گے توہم کیسے دیں گے۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اگر الیکشن کمیشن فیصلے سے خوش ہیں توپھر ان کا فیصلہ مان لیں،کیاں پی ٹی آئی کاانتخاب نہیں کیااور سنی اتحاد کونسل کاانتخاب کیا۔ جسٹس منیب اخترکا کہنا تھا کہ سلمان اکرم راجہ کامئوقف ہے کہ پی ٹی آئی ہویاسنی اتحاد کونسل مجھے پارلیمنٹ لے آئیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ایک جماعت پاکستان تحریک انصاف کو سب جانتے تھے اور سنی اتحاد کونسل کوکوئی نہیں جانتا تھا، کیوں پی ٹی آئی میں نہیں گئے اور سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیارکی۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہناتھا کہ کیا یہ انفرادی فیصلہ تھا یا جماعت کافیصلہ تھا۔سلمان اکرم راجہ کاکہنا تھا کہ 87ارکان پارٹی فیصلہ پر سنی اتحا د کونسل میں گئے۔جسٹس اطہر من اللہ کاکہناتھا کہ سپریم کورٹ فیصلے کی غلط تشریح کرتے ہوئے الیکشن کمیشن نے 2فروری کو پی ٹی آئی امیدواروں کو آزاد قراردیا۔سلمان اکرم راجہ کاکہنا تھا کہ اگر سب آزاد امیدوارہوں توپھر مخصوص نشستیں خالی رہیں گی۔ جسٹس اطہر من اللہ کاکہناتھا کہ کیا اس عدالت میںاتنی اخلاقی جرائت ہے کہ اپنے فیصلے کے حوالے سے الیکشن کمیشن کی تشریح کو غیر قانونی قراردے۔سلمان اکرم راجہ کاکہناتھا کہ مکمل انصاف کی فراہم کے حوالہ سے سپریم کورٹ آئین کے آرٹیکل 187کے تحت اپنا اختیار استعمال کرسکتی ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اگرسلمان اکرم راجہ کامئوقف مان لیاجائے توپھر سنی اتحاد کونسل صفر نشستیں رکھنے والی پارٹی بن جائے گی۔جسٹس سید منصورعلی شاہ کاکہناتھا کہ کیا مکمل انصاف ہوامیں ہورہا ہوگا، جذباتی تقریر ایک الگ بات ہے اورقانونی دلائل اوربات ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کنول شوزب نے پی ٹی آئی کو بھی اپنی درخواست میں فریق نہیںبنایا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاسلمان اکرم راجہ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ کی مئوکلہ کیا چاہ رہی ہیں، کیا ہم کسی سیاسی جماعت کوکسی شخص کو نمائندگی دینے کے حوالہ سے ہدایت کرسکتے ہیں۔ فیصل صدیق کااس موقع پر کہناتھا کہ مخصوص نشستیں سنی اتحاد کونسل کو جانی چاہیں۔ اس کے بعد عدالتی قفہ کردیا گیا۔ وقفہ کے بعد سلمان اکرم راجہ نے اپنے دلائل مکمل کر لیے۔ جبکہ چیف جسٹس نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے وکیل سکندر بشیر مہمند، اٹارنی جنرل منصورعثمان اعوان، پاکستان پیپلز پارٹی کے وکیل سینیٹر فاروق ایچ نائیک اور اضافی نشستوں پر منتخب ہونے والی مختلف سیاسی جماعتوں کی خواتیں ارکان اسمبلی کے وکیل مخدوم علی خان کو منگل کو اپنے دلائل مکمل کرنے کی ہدایت کی ہے۔ ZS
#/S