8ججز کے بطور الیکشن ٹربیونل قیام کے نوٹیفکیشن معطل ،سپریم کورٹ کا الیکشن کمیشن ور چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کو مشاورت کے زریعہ معاملہ حل کرنے کا حکم
جیسے ہی جسٹس عالیہ نیلم بطور چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ عہدے کا حلف اٹھاتی ہیں چیف الیکشن کمیشن کمشنر اورالیکشن کمیشن کے چاروں ارکان ان سے مشاور ت کرکے الیکشن ٹربیونلز کے لئے ججز کی تعیناتی کے معاملہ کو حل کریں۔ عدالت
وکیل نیاز اللہ خان نیازی کا چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی بینچ میں شمولیت پر اعتراض مسترد
چیف جسٹس کا نیازی اللہ نیازی کو لائسنس معطلی اور ڈسپلنری ایکشن کے لئے معاملہ پاکستان بار کونسل کو بھجوانے کا انتباہ
عدالت کو متنازعہ بنانے کاسلسلہ ختم ہونا چاہیئے، اگر وکیل عدالت کو متنازعہ بنانے کی کوشش کرتے گاتواس کا معاملہ پاکستان بار کونسل کو بھجیں گے۔ چیف جسٹس
اسلام آباد(ویب نیوز)
سپریم کورٹ آف پاکستان نے صوبہ پنجاب میں الیکشن تنازعات سننے کے لئے الیکشن ٹربیونلز کی تشکیل کے حوالہ سے لاہور ہائی کورٹ اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے 8ججز کے بطور الیکشن ٹربیونل قیام کے نوٹیفکیشن معطل کرتے ہوئے الیکشن کمیشن آف پاکستان اور چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کو مشاورت کے زریعہ معاملہ حل کرنے کا حکم دے دیا۔ عدالت نے قراردیا ہے کہ جیسے ہی جسٹس عالیہ نیلم بطور چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ عہدے کا حلف اٹھاتی ہیں چیف الیکشن کمیشن کمشنر اورالیکشن کمیشن کے چاروں ارکان ان سے مشاور ت کرکے الیکشن ٹربیونلز کے لئے ججز کی تعیناتی کے معاملہ کو حل کریں۔ جبکہ عدالت نے توقع ظاہر کی ہے کہ پارلیمانی کمیٹی جسٹس عالیہ نیلم اور جسٹس محمد شفیع صدیقی کے ناموں کی جلد منظوری دے گی۔ عدالت نے پارلیمانی کمیٹی کو اجلاس کرنے کے حوالہ سے کوئی بھی ہدایات جاری کرنے سے انکار کردیا۔ جبکہ پاکستان تحریک انصاف کے 8فروری کو ہونے والے انتخابات میں ہارنے والے امیدواروں کے وکیل نیاز اللہ خان نیازی نے چیف جسٹس آ ف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی بینچ میں شمولیت پر اعتراض کرتے ہوئے کیس کسی اوربھیجنے کی استدعا کی جسے چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی جانب سے مسترد کردیا گیا۔ چیف جسٹس نے نیازی اللہ نیازی کو لائسنس معطلی اور ڈسپلنری ایکشن کے لئے معاملہ پاکستان بار کونسل کو بھجوانے کا انتباہ بھی کیا۔ جبکہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ عدالت کو متنازعہ بنانے کاسلسلہ ختم ہونا چاہیئے، اگر وکیل عدالت کو متنازعہ بنانے کی کوشش کرتے گاتواس کا معاملہ پاکستان بار کونسل کو بھجیں گے۔ مجھے اس بات سے نفرت ہے جب آئینی ادارے آپس میں لڑنا شروع کردیں ، اس سے ملک تباہ ہوتا ہے۔ ہائی کورٹ نوٹیفیکیشن کے لئے الیکشن کمیشن کو ہدایات جاری کرسکتی تھی تاہم خود نوٹیفیکیشن جاری نہیں کرسکتی تھی۔ جب تک ایک دوسرے کااحترام نہیں کریں گے ملک چلے گانہیں۔ الیکشن کمیشن شفاف طریقہ سے پک اینڈچوز کی بجائے شفاف طریقہ سے چیزیں کرے، چیزیں شفاف طریقہ سے کریں،باقی صوبوں میں مسئلہ کھڑانہیں ہوایہاں بھی نہیں ہونا چاہیے۔جبکہ جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئے ہیں کہ کیا ہم اپنی بے عزتی کے لئے بیٹھے ہیں کہ لوگ ہماری بے عزتی کریں، کیا ہم مقبول فیصلے کریں۔ لوگوں کی خواہشات پر عدالتیں نہیں چلتیں۔ ہائی کورٹ کے پاس توہین عدالت کانوٹس جاری کرنے کااختیار تھا، نوٹیفیکیشن جاری کرنے کااختیار نہیں تھا۔جبکہ جسٹس عقیل احمد عباسی نے ریمارکس دیئے ہیں کہ یہ چیف جسٹس کااختیار ہے کہ وہ ججز کی تقرری کریں۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال خان مندوخیل ، جسٹس نعیم اخترافغان اور جسٹس عقیل احمد عباسی پر مشتمل 5رکنی لارجر بینچ نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے الیکشن ٹربیونلز کے قیام کے حوالہ سے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلہ کے خلاف دائر4 درخواستوں پر سماعت کی۔ درخواستوں میں پاکستان تحریک انصا ف کے قومی اسمبلی کاانتخاب ہارنے والے والے امیدواروں سلمان اکرم راجہ ،رائو عمر ہاشم خان اوردیگر کو فریق بنایا گیا تھا ۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے سکندر بشیر مہمند بطور وکیل پیش ہوئے جبکہ سلمان اکرم راجہ کے وکیل حامد خان پیش نہ ہوئے اورا ن کے جوینیر وکیل کی جانب سے التواکی درخواست کی گئی جسے عدالت نے مسترد کردیا۔اٹارنی جنرل منصورعثمان اعوان عدالتی احکامات پر پیش ہوئے۔ جبکہ سلمان اکرم راجہ، الیکشن کمیشن کے ڈی جی لاء محمد ارشد، ڈائریکٹر لائر خرم شہزاد، ڈپٹی ڈائریکٹر لاء صائمہ طارق اور لیگل کنسلٹنٹ الیکشن کمیشن فلک شیر بھی عدالت میں موجود تھے۔ پی ٹی آئی چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان ،کنول شوزب، شوکت محمود بسرا اوردیگر پی ٹی آئی رہنما بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے۔ سماعت کے آغاز پر 8فروری کے انتخابات میں ہارنے والے امیدوارون کے وکیل نیاز اللہ خان نیازی نے پیش ہو کر کہا کہ ان کے مئوکلین کی جانب سے انہیں ہدایات ہیں کہ چیف جسٹس ان کا کیس نہ سنیں اور معاملہ کسی اوربینچ کے سامنے لگایا جائے۔ اس پر چیف جسٹس نے نیاز اللہ نیازی کومخاطب کرتے ہوئے کہا کہ سن لیا تشریف رکھیں، سن لیا تشریف رکھیں۔ اس کے بعد نیاز اللہ نیازی کرسی پر بیٹھ گئے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اس کیس میں پرائیویٹ پارٹیاں کیوں ملوث ہورہی ہیں، اس میں الیکشن کمیشن اورچیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کے اختیارات کا معاملہ ہے۔ الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر بشیر مہمند کا کہناتھا کہ الیکشن ٹربیونلز کام کررہے ہیں، 29مئی 2024کو لاہور ہائی کورٹ کے ایک رکنی بینچ نے فیصلہ دیا اور قراردیا کہ مشاورتی عمل میں چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کا اولیت حاصل ہے۔ چیف جسٹس نے سلمان اکرم راجہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا مسٹر راجہ !اِدھر آیئے گزشتہ سماعت پر کیس سننے کے حوالہ سے اعتراض کیا۔ اس پر سلمان اکرم راجہ کاکہنا تھا کہ انہوں نے اعتراض نہیں کیا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ بہت ہوگیا ہے کہ عدالت کو متنازعہ بنانے کی کوشش ہورہی ہے، کیا ہم نیازی اللہ نیازی کا لائسنس معطل کرنے اور ڈسپلنری ایکشن کے لئے پاکستان بار کونسل کو بھیجیں، عدالت کو متنازعہ بنانے کاسلسلہ ختم ہونا چاہیئے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ مسلسل عدالت کو متنازعہ بنانے کی کوشش ہورہی ہے، نیاز اللہ نیازی نے گزشتہ سماعت پر فریق بننے کی درخواست جسے ہم نے منظور کیا اور ریلیف دیا۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ میں کیس سماعت کے لئے مقررنہیں کرتا بلکہ کمیٹی کرتی ہے، اگر وکیل عدالت کو متنازعہ بنانے کی کوشش کرتے گاتواس کا معاملہ پاکستان بار کونسل کو بھجیں گے، سپریم کورٹ کی 3رکنی کمیٹی جمہوری طریقہ سے کام کرتی ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ پہلے دن دو جج تھے ، تین بعد میں آئے کیا ہم پر اعتراض کیا ہے، کیا ہم اپنی وضاحتیں دیتے رہیں گے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ کیا ہم اپنی بے عزتی کے لئے بیٹھے ہیں کہ لوگ ہماری بے عزتی کریں، کیا ہم مقبول فیصلے کریں، اعتراض بتائیں اور وجہ بتائیں، تین ارکان پر اعتراض کررہے ہیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہنا تھا کہ جو شخص جیل میں ہے اس کا چھوڑ دیں،دوارکان پر اعتراض نہیں تھا ، مجھ پراعتراض کیا ہے۔ نیاز اللہ نیازی کا کہنا تھا کہ بطور ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد، چیف جسٹس قاضی فائز کے سامنے پیش ہوتا رہا ہوں، بہت سی باتیں ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم پاکستان بار کونسل کو معاملہ بھیجنے کا سوچ رہے ہیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہنا تھا کہ لوگوں کی خواہشات پر عدالتیں نہیں چلتیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عمران خان ویڈیو لنک کے زریعہ سپریم کورٹ میں پیش ہوئے انہوں نے ان پر اعتراض نہیں، وہ خود عدالت سے مخاطب ہوئے، نیاز اللہ نیازی اُن کے منہ میں الفاظ ڈال رہے ہیں، اخباروں کی ہیڈلائنز بنانا چاہتے ہیں، اپنی مرضی کے نتائج چاہتے ہیں، کیا جو منہ میں آئے گا کہہ دیں گے، نیاز اللہ نیاز ی تشریف رکھیں بعد میں دیکھیں گے کہ ان کا معاملہ پاکستان بار کونسل کو بھیجتے ہیں کہ نہیں، وہ کیس خراب کرنا چاہتے ہیں۔ اس موقع پر اٹارنی جنرل نے پیش ہوکربتایا کہ ریٹائرڈ ججز کی بطور الیکشن ٹربیونل تعیناتی کے حوالہ سے قومی اسمبلی میں بل پاس ہوا ہے اور معاملہ سینیٹ کو بھجوایا ہے۔ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ الیکشنز ایکٹ2017کی شق 140کو اصل حالت میں بحال کیا گیا ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سینیٹ پاس کرے یا نہ کرے ہوسکتا ہے واپس قومی اسمبلی کو بھیج دے۔ الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر بشیر مہمند کاکہنا تھا کہ رجسٹرار لاہور ہائی کورٹ اور سیکرٹری الیکشن کمیشن کے درمیان خط وکتابت ہوئی، الیکشن ٹربیونلز کے قیام کے لئے 9نام مانگے گئے تھے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہناتھا کہ کیا چیف جسٹس، الیکشن کمیشن کی درخواست مسترد کرسکتا ہے۔ سکندر بشیر مہمند کا کہنا تھا کہ ہم اس بات سے انکار نہیں کرسکتے کہ مشاورت نہیں ہونی چاہیئے مگر ڈکٹیشن بھی نہیں ہونی چاہیے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہناتھا کہ یہ بھی نہیں ہوسکتا کہ چیف جسٹس کو ڈکٹیٹ کریں اور جو نام پسند آئے وہ لگائیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ مسئلہ کیا ہے جا کرچیف جسٹس سے ملاقات کرلیں، آمنے سامنے ملاقات پر پابندی نہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کتنے جج چاہیں، 15یا 20،کسی پر اعتراض ہوسکتا ہے کہ اس کا بھائی الیکشن لڑا یا وہ علاقہ سے ہے، یہ چیزیں بھی ہیں تاہم یہ چیزیں پبلک نہیں ہونی چاہیں تھیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہناتھا کہ ہم میں سے اکثر ہائی کورٹس کے چیف جسٹس رہ چکے ہیں جب یہ کہا جاتا ہے کہ فلاں کو بھجوادیں تویہ بات ہمیں بہت برُی لگتی ہے۔ چیف جسٹس کا کہناتھا کہ کتنی الیکشن پیٹیشنز دائرہوئیں اس کے حساب سے 10،20یا30نام دیں۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ دومعقول افرا د آسانی سے معاملہ حل کرسکتے ہیں،چیف جسٹس اورچیف الیکشن کمشنر یا الیکشن کمیشن کے 4ارکان بھی جائیں اورمعاملہ حل کریں کیوں وقت ضائع کررہے ہیں۔ چیف جسٹس کاسکندر بشیر مہمند سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ کیوں نہیں چلے جاتے۔ اس پر سکندر بشیر مہمند کاکہنا تھا کہ گزشتہ سماعت سے رہنمائی لیتے ہوئے چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کو خط لکھا او رملاقات کاوقت مانگا تاہم ابھی تک کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ بہتر ہوتا کہ الیکشن کمیشن کہتا مجھے لاہور، ملتان اور راولپنڈی کے لئے جج دے دیں۔ چیف جسٹس کا کہناتھا کہ نامزد چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کا نام منظوری کے لئے پارلیمانی کمیٹی کو بھجوایا ہے، کیا اٹارنی جنرل کو اس حوالہ سے معلوم ہے، کیا یہ معاملہ تیز نہیں ہوسکتاکیونکہ یہ الیکشن کامعاملہ ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ مجھے اس بات سے نفرت ہے جب آئینی ادارے آپس میں لڑنا شروع کردیں ، اس سے ملک تباہ ہوتا ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم نے صدر اورالیکشن کمیشن کوبٹھایا اور انتخابات کی تاریخ دلوائی، ہم نے کسی کو نیچا نہیں دکھایا، اللہ تعالیٰ کی مہربانی سے انتخابات کی تاریخ آگئی۔چیف جسٹس کا سلمان اکرم راجہ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کیا اس معاملہ میں بھی یہی طرز عمل نہیں اپنایا جاسکتا۔ اس پر سلمان اکرم راجہ کاکہنا تھا کہ میرے وکیل حامد خان موجود نہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم الیکشن کمیشن کی بات نہیں مان رہے، ہوسکتا ہے چیف جسٹس لاہورہائی کورٹ اور الیکشن کمیشن متفق ہوجائیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ میں نہیں سمجھتا کہ کوئی لڑائی ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ ہم وہاں سے شروع کررہے ہیں جہاں نہ پینل کی بات ہوئی ہے ، یہ بتائیں قانون میں کون سااختیار ہے کہ نام مستردکردیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ نئی چیف جسٹس تعینات ہورہی ہیں ہوسکتا ہے وہ نظرثانی کریں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ وکیل کاکام نہیں کہ آئینی ادارے آپس میںلڑیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن نے 14فروری کوخط لکھا، لاہور ہائی کورٹ کاجواب بہت دن بعد اس میں الیکشن کمیشن کاقصور نہیں۔ چیف جسٹس کااٹارنی جنرل کومخاطب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ہم معاملہ کوالتوامیں رکھتے ہیں اوردونوں ادارے بیٹھ کر مسئلہ حل کریں، ہرچیز میںلڑائی ہوتی ہے۔ جسٹس عقیل احمد عباسی کاکہنا تھا کہ چھوٹاسا اختیارمشاورت کا سیکشن 140میں چیف جسٹس کو دیا گیا ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ کیا نام اچھی نیت سے مسترد کئے۔ جسٹس عقیل احمد عباسی کاکہنا تھا کہ یہ چیف جسٹس کااختیار ہے کہ وہ ججز کی تقرری کریں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم کسی ادارے کی تحقیر نہیں کرنا چاہتے، ہم معاملہ التوا میں رکھتے ہیں، آپ کوئی پیش رفت ہوگی توجمع کروادیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ٹربیونل کام جاری رکھیں، ہم اتفاق رائے سے آرڈر کریں گے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہائی کورٹ نے خود نوٹیفکیشن جاری کیا اس حوالہ سے اٹارنی جنرل کی کیا رئے ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہائی کورٹ نوٹیفیکیشن کے لئے الیکشن کمیشن کو ہدایات جاری کرسکتی تھی تاہم خود نوٹیفیکیشن جاری نہیں کرسکتی تھی۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ ہائی کورٹ کے پاس توہین عدالت کانوٹس جاری کرنے کااختیار تھا، نوٹیفیکیشن جاری کرنے کااختیار نہیں تھا۔ سکندر بشیر مہمند نے استدعا کی کہ ہائی کورٹ کا نوٹیفکیشن معطل کیا جائے تاکہ بامعنی مشاور ت ہوسکے۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ بیچ کاراستہ کیاہے۔اس پر سکندر بشیر مہمند کا کہنا تھا کہ عارضی طور پر نوٹیفکیشن معطل کردیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ پھر توچیف جسٹس خود ہائی کورٹ کے فیصلے کی توہین کررہے ہوں گے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ نوٹیفیکیشن کی معطلی مشاورت کے نتائج سے مشروط ہوگی۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہناتھا کہ ہمارافیصلہ ایک آئینی ادارے کے حق میں اوردوسرے کے خلاف آئے گا جو کہ اچھا نہیں ہوگا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ میں سب اداروں کے اختیارات کااحترام کرتا ہوں، پارلیمانی کمیٹی سے جلد کام کرنے کی درخواست کرسکتا ہوں ہدایات نہیں دے سکتا، جب تک ایک دوسرے کااحترام نہیں کریں گے ملک چلے گانہیں،اب تودنیا ثالثی کی طرف جارہی ہے، دوسروں کا معاملات کے حل کے لئے متبادل ذرائع استعمال کرنے کا کہہ رہے ہیں اورخود نہ کریں۔ جسٹس نعیم اخترافغان کا کہنا تھا کہ صرف ناموں پر مشاورت نہ کریں بلکہ دائرہ اختیار پر بھی مشاورت کریں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کتنے ٹربیونلز بنانا چاہتے ہیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ پینل بنانے اور نام مسترد کرنے کی بات چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کو پسند نہیں آئی، اگر میں ہوتا تومیں بھی یہی کرتا۔ اس کے بعد ججز مشاور ت کے لئے واپس چلے گئے۔27منٹ بعد ججز مشاورت کے بعد کمرہ عدالت میں واپس آئے۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کومخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ بھی روسٹرم پرآجائیں اور اگر سلمان اکرم راجہ آنا چاہیں تووہ بھی آجائیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ بطور درخواست گزار سلمان اکرم راجہ کالے کوٹ میں نہیں آئے یہ بہتر طریقہ ہے۔ چیف جسٹس کاحکم لکھواتے ہوئے کہنا تھا کہ سکندر بشیر مہمند نے 27جون2024کو الیکشن کمیشن کی جانب سے رجسٹرار لاہور ہائی کورٹ کو لکھا گیاخط ریکارڈپر رکھا جس میں چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ سے ملاقات کاوقت مانگا گیا ہے۔ الیکشن کمیشن نے 14فروری کو الیکشن ٹربیونلز کے قیام کے حوالہ سے ججوں کے ناموں کے لئے چاروں ہائی کورٹس کے رجسٹرارز کو خط لکھا۔ لاہور ہائی کورٹ نے 20فروری کو2ججوں کے نام بھجوائے اور اسی تاریخ کو الیکشن کمیشن نے ان کی تعیناتی کانوٹیفیکیشن جاری کردیا اور ان کو دائرہ اختیار بھی تفویض کردیا۔ 26اپریل 2024کو الیکشن کمیشن اور لاہور ہائی کورٹ کے درمیان الیکشن ٹربیونلزکے جج کی تعیناتی کاتنازعہ پیدا ہوا۔ 26اپریل کو ہی الیکشن کمیشن نے لاہور ہائی کورٹ سے ججز کے پینل مانگ لئے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ہم معاملہ سلجھانے کی بات کررہے ہیں۔ 10مئی 2024کو رٹ پیٹیشن دائر ہوئی۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ تنگ آمد بجنگ آمد۔ 29مئی کو لاہور ہائی کورٹ کے ایک رکنی بینچ نے فیصلہ دیا۔ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ اور الیکشن کمیشن کے درمیان مشاورت سے معاملہ حل ہوسکتا ہے، ہم الیکشن کمیشن اور چیف جسٹس کااحترام کرتے ہیں، معاملہ التوامیں رکھیں گے اورکیس کومیرٹس پر نہیں سنیں گے۔ پہلی نظر میں نظر آتاہے کہ بامعنی مشاورت ابھی نہیں ہوئی، بامعنی مشاورت ہونی چاہیئے۔ 2جولائی کوجوڈیشل کمیشن کااجلاس ہوا تھا ، چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کے لئے نامزد نام پارلیمانی کمیٹی کو منظور ی کے لئے بھجوایا ہے، یہ توقع کی جاتی ہے کہ معاملہ جل حتمی شکل اختیار کرلے گا ، پارلیمانی کمیٹی کے پاس نام کی منظوری کے حوالہ سے 14دن کا وقت ہے، ہم نہیں چاہتے کہ پارلیمانی کمیٹی کے دائرہ اختیار میں تجاوز کریں۔ ہم الیکشن کمیشن کے نوٹیفکیشن بھی معطل کررہے ہیں اور26اپریل کاخط اور بعد میں ہونے والی خط وکتابت بھی معطل کررہے ہیں۔ بامعنی مشاورت ہونی چاہیے۔ لاہور ہائی کورٹ کا 12جون 2024کا ٹرنیونلز کے قیام کا نوٹیفیکیشن بھی معطل کررہے ہیں ۔الیکشن کمیشن فوری طور پر چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کی تعیناتی اورحلف کے بعدان سے ملے ، اس کے بعد عدالت کیس کی سماعت کرے گی۔ چیف جسٹس کا کہنا تھاکہ الیکشن کمیشن شفاف طریقہ سے پک اینڈچوز کی بجائے شفاف طریقہ سے چیزیں کرے، چیزیں شفاف طریقہ سے کریں،باقی صوبوں میں مسئلہ کھڑانہیں ہوایہاں بھی نہیں ہونا چاہیے۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سلمان اکرم راجہ،نیاز اللہ نیازی کوسمجھائیں، ایک دوسرے کااحترام کریں۔ عدالت نے کیس کی مزید سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کردی۔ ZS
#/S