آرٹیکل 63-Aکی تشریح کے حوالہ سے دائر نظرثانی درخواست کی سماعت
متفقہ طور پر بینچ کی تشکیل کے حوالہ سے اعتراضات مسترد ، بیرسٹر سید علی ظفر کو اپنے مئوکل عمران خان سے جیل میں ملاقات کرکے ہدایات لینے کی اجازت 
 ہم ملک توڑنے والوں میں سے نہیں بلکہ بنانے والوں میں سے ہیں۔ اگر پارلیمنٹ قانون بناتی ہے توہمیں اس کو ماننا ہے ،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ
چیف جسٹس  نے پولیس طلب کرکے وکیل مصطفین کاظمی کو کمرہ عدالت سے باہر نکلوادیا
جو فیصلہ پسند ہوتوٹھیک ہے جو پسند نہ ہو انگلی اٹھادی،ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے۔ نہ کھیلیں گے نہ کھیلنے دیں گے والی پالیسی نہیں چلے گی،جسٹس جمال خان مندوخیل

اسلام آباد( ویب  نیوز)

سپریم کورٹ آف پاکستان نے آئین کے آرٹیکل 63-Aکی تشریح کے حوالہ سے دائر نظرثانی درخواست کی سماعت کے دوران پاکستان تحریک انصاف کے وکیل سینیٹر بیرسٹر سید علی ظفر کو اپنے مئوکل سابق وزیر اعظم عمران خان سے جیل میں ملاقات کرکے ہدایات لینے کی اجازت دے دی۔ عدالت نے ملاقات کے حوالہ سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل چوہدری عامررحمان کو ہدایات جاری کردیں۔ عدالت نے قراردیا ہے کہ سید علی ظفر آج یا کل صبح 10بجے تک ایک یا دومرتبہ ملاقات کرسکتے ہیں۔ جبکہ عدالت نے متفقہ طور پر بینچ کی تشکیل کے حوالہ سے پی ٹی آئی وکیل سید علی ظفر کے اعتراضات مسترد کردیئے۔ پی ٹی آئی وکیل سید علی ظفر نے 127منٹ کی سماعت کے دوران صرف بینچ کی تشکیل پر اعتراضاہی ریکارڈ کروائے اور میرٹس پر دلائل دینے کے لئے اپنے مئوکل سے ہدایات لینے اور ملاقات کی اجازت دینے کی استدعا کی۔ جبکہ دوران سماعت پاکستان تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے سپریم کورٹ کے وکیل مصطفین کاظمی نے بینچ کی تشکیل پرعدم اعتماد کااظہار کرتے ہوئے کہا کہ باہر 500وکلاء موجود ہیں بینچ ہمارے خلاف فیصلہ کرکے دکھائے ہم دیکھ لیں گے۔ جبکہ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پولیس طلب کرکے وکیل کو کمرہ عدالت سے باہر نکلوادیا۔جبکہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ ہم ملک توڑنے والوں میں سے نہیں بلکہ بنانے والوں میں سے ہیں۔ جو لوگ آمروں کے ساتھ سننے کے لئے کھڑے ہوتے تھے اس کوہم واپس نہیں آنے دیں گے، ہم نہ ملک اورنہ اداروں میں آمرانہ دورواپس آنے دیں گے۔ ایک سابق چیف جسٹس نے کتنے ارکان اسمبلی کوجیل بھیجا، یوٹیوبرز بھی کہتے ہیں ہم پروگرام چلائیں گے یہ چیف جسٹس کچھ نہیں کہے گا، میں برداشت کرتا ہوں، ثاقب نثار نے کتنوں کو جیل بھیجا اور کتنے ارکان پارلیمنٹ کی رکنیت منسوخ کروادی۔ میری والدہ نے بنیادی سبق پڑھایا تھا کہ جو کچھ کہتا ہے وہ خود وہی ہوتا ہے، شرافت کازمانہ اب نہیں۔ ہم نے کیس چلانا ہے۔ اگر پارلیمنٹ قانون بناتی ہے توہمیں اس کو ماننا ہے ، پارلیمنٹ تین، چاریا پانچ رکنی کمیٹی بناسکتی ہے، یاتوکہیں قانون غیر آئینی ہے، کل کوپارلیمنٹ قانون ختم کرسکتی ہے ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ختم نہ کریں۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ نے جو کہا وہ آئین کے مطابق نہیں، میں کسی کو مجبورنہیں کرسکتا کہ اجلاس میں شرکت کرے۔ میں کل سے کسی کمیٹی میں نہ جائوں توکیا سپریم کورٹ بند ہوجائے گی۔ جبکہ جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئے ہیں کہ جو فیصلہ پسند ہوتوٹھیک ہے جو پسند نہ ہو انگلی کھڑی کرکے کہہ دو پانچ جج ایسے ہیں، چار جج ایسے ہیں، یہ کوئی طریقہ ہے ، ہم یہاں عزت کے لئے بیٹھے ہیں، کسی کی عزت کاخیال نہیں، بہت ہوگیا۔ ایسے لگ رہا ہے کہ ملک اور معاشرہ چند لوگوں کاہے جوچاہتے ہیں کہ ملک اورادارے ان کی مرضی سے چلیں ،ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے۔ نہ کھیلیں گے نہ کھیلنے دیں گے والی پالیسی نہیں چلے گی،عدالت نے کیس کی مزید سماعت  آج (جمعرات)دن ساڑھے 11بجے تک ملتوی کردی۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال خان مندوخیل ، جسٹس نعیم اخترافغان اور جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل پرمشتمل 5رکنی لارجر بینچ نے آئین کے آرٹیکل 63-Aکی تشریح کے حوالہ سے سپریم کورٹ بارایسوسی ایشن آف پاکستان کی نظرثانی درخواست پر سماعت کی۔ دوران سماعت صدر سپریم کورٹ بارایسوسی ایشن بیرسٹر محمد شہزاد شوکت، سینیٹر فاروق حمید نائیک، ایڈیشنل اٹارنی جنرل چوہدری عامر رحمان پیش ہوئے۔ جبکہ پی ٹی آئی اور عمران خان کی جانب سے سینیٹر سید علی ظفر نے پیش ہوکردلائل دیئے۔ سماعت کے آغاز پر جسٹس جمال خان مندوخیل کاشہزادشوکت سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ نے اپیل کے 3روززائدالمعیاد ہونے کے حوالہ سے بتاناتھا۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ رپورٹ آئی کہ نہیں کب تفصیلی فیصلہ جاری ہواتھا۔ چیف جسٹس نے شہزادشوکت کوہدایت کی کہ رپورٹ پڑھیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ تفصیلی فیصلہ 14اکتوبر 2022کو جاری ہوا تھا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ مختصر فیصلہ توآچکا تھا،ایک درخواست لکھ دیتے۔ شہزادشوکت کاکہنا تھا کہ23جون کو نظرثانی درخواست کے ساتھ کی تاخیر کی معافی کے حوالہ سے درخواست دائر کی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ یہ آئینی اہمیت کامعاملہ ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کونہیں پتا کہ کتنے دن میں درخواست دائر ہوتی ہے، وجہ کیا تھی۔ شہزادشوکت کاکہنا تھا کہ 17مئی کومختصر فیصلہ آیا، عوامی مفاد کے معاملات میں جلد ازجلد فیصلہ جاری کیا جانا چاہیئے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاشہزاد شوکت سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ یہ سنجیدہ معاملہ تھا آپ خاموش رہے۔ شہزاد شوکت کاکہنا تھا کہ مجھے بطور صدر سپریم کورٹ بار یہ درخواست ورثہ میں ملی ہے اور میں نے خود یہ درخواست دائر نہیں کی تھی۔ شہزادشوکت کاکہنا تھا کہ ہرعوامی اہمیت کاتندہی کے ساتھ سماعت کے لئے مقررہونا چاہیئے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ زائدالمعیادکے حوالہ سے سید علی ظفر کے دلائل سنتے ہیں۔ سید علی ظفر کاکہنا تھا کہ میں نظرثانی درخواست کی مخالفت کروں گا۔ چیف جسٹس کاسید علی ظفرسے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اپنی استدعا کے حق میں دلائل دیں۔ سید علی ظفر کاکہنا تھا کہ سپریم کورٹ بارایسوسی وکلاء کی سب سے بڑی تنظیم ہے اس کو پتا ہے کتنے دن میں نظرثانی درخواست کرنی ہے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ کیا فیصلے یا وجوہات پر نظرثانی مانگی جاتی ہے۔ چیف جسٹس کاسید علی ظفر سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ عدالت کے اندر وکیل ہوتے ہیں اور باہر سیاستدان ہوتے ہیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ پہلے زائدالمعیاد کے حوالہ سے دلائل دیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ آپ نظرثانی میں وجوہات پر نظرثانی مانگتے ہیں۔ سید علی ظفرکاکہنا تھا کہ مختصر فیصلہ ہی اصل فیصلہ ہے۔ سید علی ظفر کاکہنا تھا کہ سپریم کورٹ گزشتہ 20سال کے دوران تواترکے ساتھ کہہ چکی ہے کہ نظرثانی درخواست مقررہ مدت میں دائر ہونی چاہیئے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ بعد میں تفصیلی فیصلہ کے بعد مزید معروضات جمع کرکروائی جاسکتی ہیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ کیوں سابق چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ کاانتظار کیا گیا، اگر جج فوری ریٹائر ہوجائے تواوربات ہے، انہیں ججز کے سامنے نظرثانی لگانی چاہیئے تھی جنہوں نے کیس سنا تھا۔ سید علی ظفر کاکہنا تھا کہ میں بتائوں گاکہ کتنے نظرثانی والے کیسز فوری سماعت کے لئے مقررہونے چاہیں۔ سید علی ظفرکاکہنا تھا کہ سپریم کورٹ میں کیسز پریکٹس اینڈ پروسیجرترمیمی آرڈیننس کے مطابق سماعت کے لئے مقرر ہورہے ہیں۔ سید علی ظفر کاکہنا تھا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ میں 7(b)کااضافہ کیا گیا ہے جس کے مطابق ہر کیس کی ریکارڈنگ ہو گی اور ٹرانسکرپٹ تیارکیا جائے گا۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ریکارڈنگ ہورہی ہے اور اگر پیسے دیں گے توٹرانسکرپٹ بھی تیارہوجائے گا ، ٹرانسکرپٹ تیار کرنے پر کافی وقت لگے گا۔ سید علی ظفر کاکہنا تھا کہ گزشتہ روز میٹھی بحث ہوئی تھی۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ توقع ہے کہ آج زیادہ میٹھے دلائل ہوں گے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ لگتا ہے کہ گزشتہ روز کے دلائل سید علی ظفر کو پسند آئے۔ جسٹس نعیم اخترافغان کاکہنا تھا کہ تلخ اورشیریں مل کرہی ذائقہ بنتا ہے ہم تلخ باتیں بھی سنیں گے۔ جسٹس مظرعالم خان میاں خیل کاکہنا تھا کہ ہم اس لئے بینچ میں بیٹھے ہیں کہ ہمیں مطمئعن کریں تاکہ ہم اپنے اقلیتی فیصلے پر نظر ثانی کرلیں۔ سید علی ظفرکاکہنا تھا کہ میری کچھ درخواستیں سپریم کورٹ آفس نے وصول نہیں کیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ آپ زبانی بتادیں ہم سن لیتے۔ سید علی ظفر کاکہنا تھا کہ میں نے کہا تھا کہ مجھے اپنے مئوکل سے ملاقات کاوقت دیں، عمران خان ملک کے سابق وزیر اعظم ہیں انہیں قانونی دلائل کی سمجھ بوجھ ہے، ان سے بات کرنے کی اجازت دی جائے۔ چیف جسٹس کاسید علی ظفرسے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ دلائل دے دیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ہم تحمل سے سنتے ہیں ہمیں بھی تحمل سے سنیں، کیس چلائیں ہم سن رہے ہیں۔ سید علی ظفرکاکہنا تھا کہ مجھے اس کی توقع تھی۔ سید علی ظفر کاکہنا تھا کہ ایک ہی دن سب کے دلائل نہیں ہوتے اور بغیر نوٹس دیئے دوسرے دن مخالف فریق کو دلائل کانہیں کہاجاتا او رمئوکل سے ملاقات کی اجازت بھی نہیں دی جاتی۔ سید علی ظفر کاکہنا تھا کہ مجھے 2ہفتے کاوقت دے دیں، کیس کی تیاری کے لئے سینکڑو ں کتابیں پڑھنا پڑتی ہیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ دودن کاکیس ہے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ہم التواکی درخواست نہیں سننے بیٹھے، دلائل دیں۔ سید علی ظفر کاکہنا تھا کہ وزیر اعظم شہبازشریف، اسپیکر قومی اسمبلی اورسیکرٹری قومی اسمبلی کونوٹس نہیں گئے، یہ غیر آئینی بینچ ہے اس میں جسٹس امین الدین خان اورجسٹس نعیم اخترافغان غیر قانونی طورپر موجود ہیں۔ اس موقع پر پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے وکیل مصفطین کاظمی روسٹرم پرآگئے اورمائیک اپنی طرف کر کے بات کرنا شروع کردی اور کہا کہ پی ٹی آئی متاثرہ فریق ہے، یہ بینچ غیر قانونی ہے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ پولیس والے کوبلالیں۔ اس پر مصطفین کاظمی کاکہنا تھا کہ بلالیں آپ کااورکیا کام ہے، عدالت کومذاق بنالیا ہے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ہم یہ کنڈکٹ قبول نہیں کریں گے اوراس حوالہ سے سخت کاروائی کریں گے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ اس ردعمل سے آپ اداروں کوختم کرنا چاہتے ہیں، باہر جائیں۔ اس پر مصفطین کاظمی کاکہنا تھا کہ باہر500وکلاء کھڑے ہیں دیکھتے ہیں ہمارے خلاف کیسے فیصلہ آتا ہے۔ اس کے بعد چیف جسٹس کی ہدایت پر سیکیورٹی اہلکار مصطفین کاظمی کوکمرہ عدالت سے باہر لے گئے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ کچھ تواداروں کاخیال کریں، یوٹیوبرز آجائیں گے وہ چلادیں گے، دیکھیں کتنے لوگ ان کے ساتھ گئے ہیں، مقصد پورا ہوگیا ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہناتھا کہ جو فیصلہ پسند ہوتوٹھیک ہے جو پسند نہ ہو انگلی کھڑی کرکے کہہ دو پانچ جج ایسے ہیں، چار جج ایسے ہیں، یہ کوئی طریقہ ہے ، ہم یہاں عزت کے لئے بیٹھے ہیں، کسی کی عزت کاخیال نہیں، بہت ہوگیا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاسید علی ظفر سے مکالمہ کرتے ہوئے آپ جتنا ٹیکس دیتے ہیں اتنی ہماری تنخواہ ہے، اس طرح ملک کوچلائیں گے، سینیٹ اورقومی اسمبلی میں بھی یہی ہورہا ہے، ہمیں کیوں فریق بنارہے ہیں، اس ادارے کوبھی پارلیمنٹ کی طرح بنادیا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ جب پہلے بینچ اس کیس کوسن رہا تھا توگ باتیں کرتے تھے کہ یہ پی ٹی آئی کے حمایتی جج ہیں، کوئی اس فیصلہ کوپسند نہیں کرتا۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ایک سابق چیف جسٹس نے کتنے ارکان اسمبلی کوجیل بھیجا، یوٹیوبرز بھی کہتے ہیں ہم پروگرام چلائیں گے یہ چیف جسٹس کچھ نہیں کہے گا، میں برداشت کرتا ہوں، ثاقب نثار نے کتنوں کو جیل بھیجا اور کتنے ارکان پارلیمنٹ کی رکنیت منسوخ کروادی۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ میری والدہ نے بنیادی سبق پڑھایا تھا کہ جو کچھ کہتا ہے وہ خود وہی ہوتا ہے، شرافت کازمانہ اب نہیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ بدتمیزی کرنے والے وکیل شکل وصورت سے بھلے مانس اوراچھے خاندان سے لگ رہے تھے میں نے پہلی دفعہ انہیں دیکھا ہے ، اپنے بزرگوں کو بھی یہی کہتے ہوں گے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ہم نے کیس چلانا ہے، آپ کی مرضی نہیں چلے گی۔ سید علی ظفر کاکہنا تھا کہ مجھے دشمن قرارنہ دیں۔ چیف جسٹس کاسید علی ظفر سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ میں نے کبھی آپ سے بدتمیزی کی ہے۔ اس پر علی ظفر کاکہنا تھا کہ بالکل نہیں کی۔جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ ایک کیس میں پی ٹی آئی کے حق میں فیصلہ دیا تو میں نے اپنے ساتھی ججز سے کہ آپ کی بڑی تعریفیں کررہے ہیں، اس پر اُن ججز نے کہا کہ کل کواگرخلاف فیصلہ دیں گے توپھر یہ ہمیں گالیاں دیں گے۔ جسٹس مظہرعالم خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ ہم اپنی نوجوان نسل کوکس جانب لے کرجارہے ہیں، اس کوبھی دیکھیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ ایسے لگ رہا ہے کہ ملک اور معاشرہ چند لوگوں کاہے جوچاہتے ہیں کہ ملک اورادارے ان کی مرضی سے چلیں ،ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے، جوہمدردی ملنی تھی اُس کو بھی ہاتھ سے نکال رہے ہیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ اس کیس میں پی ٹی آئی کے وکیل کون تھے۔ اس پر سید علی ظفر کاکہنا تھا کہ میں اور بابراعوان وکیل تھے۔ سید علی ظفر کاکہنا تھا کہ بدقسمت واقعہ ہوا ہے اس پر معذرت کرتا ہوں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ آپ دلائل دیں اگر کوئی آکر اعتراض کرے گاتوہم دیکھ لیں گے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ہم نے ہر بالغ پاکستانی کونوٹس دیا ہے، صدر مملکت کی کوئی سیاسی جماعت نہیں ہوتی،وہ حکومت ،اپوزیشن اورہرپاکستانی کی نمائندگی کرتے ہیں، ہمیں ہرپاکستان کونوٹس کرنا ہوگا یہ میڈیا میں بڑے پیمانے پر چھپا ہے۔ سید علی ظفر کاکہنا تھا کہ میرے دلائل تلخ ہوں گے۔ اس پر چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ آپ کی زبان میں تلخی نہیں ہوسکتی۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاسید علی ظفر سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ بدتمیزی کرنے والے شخص کی سطح پر آنا چاہتے ہیں توآپ کی مرضی۔ سید علی ظفرکاکہنا تھا کہ یہ بینچ ترمیمی آرڈیننس کے مطابق تشکیل نہیں دیا گیا بلکہ خلاف ورزی کرتے ہوئے بنایا گیا ہے، یہ مناسب طریقہ سے تشکیل نہیں دیا گیا۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کیوں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ سید علی ظفر اتنی مرتبہ ایک بات کہہ رہے ہیں کہ بات بری لگے۔ جسٹس نعیم اخترافغان کاکہنا تھا کہ ایک بندہ کہتا ہے آپ کو غصہ آرہا ہے ،دوسرابندہ کہتا ہے نہیں آرہا، وہ کہتا ہے آرہا ہے، پھر آہی جاتا ہے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ پی ٹی آئی نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کی مخالفت کی تھی، پارٹی کامئوقف انفرادی نہیں ہوتا۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ اگر پارلیمنٹ قانون بناتی ہے توہمیں اس کو ماننا ہے ، پارلیمنٹ تین، چاریا پانچ رکنی کمیٹی بناسکتی ہے، یاتوکہیں قانون غیر آئینی ہے، کل کوپارلیمنٹ قانون ختم کرسکتی ہے ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ختم نہ کریں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ اگرقانون نہ بھی ہوتوچیف جسٹس کودیگر ججز سے بات کرنے سے کس نے روکا ہے، پارلیمنٹ کاکام ہے کل کوقانون تبدیل کردے۔ چیف جسٹس کاکہ یہ بینچ غیر آئینی ہے وہ دکھائیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ آرڈیننس میں تین نے مشاورت کرنی ہے ، مشاورت ختم تونہیں کی، کل کواگر کوئی آرڈیننس آجاتا ہے تو10جج بھی مشاورت کریں گے۔ سید علی ظفر کاکہنا تھا کہ بینچ غیر قانونی ہے۔ سید علی ظفرکاکہنا تھاکہ ایسے تونہیں کہ میں چھلانگ لگاکرآئوں اور چلاجائوں اوردلائل نہ دوں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ کمیٹی میں تین میں اکثریت کیا بنتی ہے، کیا نئے آرڈیننس کے تحت کمیٹی تشکیل دی۔ سید علی ظفر کاکہنا تھا کہ چیف جسٹس باقی اداروں کے لئے کہتے ہیں کہ اختیار ڈھانچہ کی صورت میں ہونا چاہیئے توپھر جووہ بات دوسرے اداروں کے لئے کہتے ہیں وہی اپنے ادارے کے لئے بھی کریں۔ چیف جسٹس کاسید علی ظفر سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ہر چیز کوانگلش سے اردو میں ٹرانسلیٹ کررہے ہیں یہ کسی اورمقصد کے لئے ہے توبتادیں، سپریم کورٹ میں رجسٹرارایک ہے اورسیکرٹریز بہت ہیں۔ چیف جسٹس کاسید علی ظفرسے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ وقت ضائع نہ کریں، اس طرح دلائل دیں گے تورات تک کیس چلے گا۔ سید علی ظفر کاکہنا تھا کہ جسٹس سید منصورعلی شاہ نے 23ستمبر کوخط لکھا۔چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ اگر ججز کو شرمندہ کرناچاہتے ہیں توآپ کی مرضی ہے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ میرے اقدامات شفاف ہیں، آپ میرے دماغ کو نہیں پڑھ سکتے، یہ کہہ سکتے ہیں کہ میری قانون کی سمجھ کم ہے۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ نے جوکہااُس کاجواب میں نے دے دیا۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ کیا کل کو کوئی قانون بنتا ہے توہم فل کورٹ میٹنگ بلا کرکہہ سکتے ہیں کہ قانون غلط ہے۔ سید علی ظفرکاکہنا تھا کہ ایک طریقہ سے کہہ سکتے ہیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ جسٹس سید منصورعلی شاہ نے جو کہا وہ آئین کے مطابق نہیں، میں کسی کو مجبورنہیں کرسکتا کہ اجلاس میں شرکت کرے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ میں کل سے کسی کمیٹی میں نہ جائوں توکیا سپریم کورٹ بند ہوجائے گی۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ سابق چیف جسٹس کے دور میں 8ججز نے حکم امتناع دیا وہ قانون معطل نہیں کرسکتے تھے، چیف جسٹس کمیٹی میں نہ بیٹھتے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ علی ظفر کے لئے مسئلہ ہے میرے لئے مسئلہ نہیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ میرے کزن نے گزشتہ روز کہا کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل سے سپریم کورٹ تباہ ہوگئی، میں نے پوچھا آپ نے بل پڑھا ہے توانہوں نے کہا نہیں پڑھا، میں نے انہیں سمجھایاتوان کو سمجھ آگئی اورکہا لالہ آپ ٹھیک کہتے ہیں، اکثریت نے یہ قانون نہیں پڑھا۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ بینچ غلط بنایا نوٹ کرلیا آگے بڑھیں، اب کمیٹی میٹنگ بھی چیلنج ہوگئی۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ میں نے کوشش کی جسٹس منیب اختربینچ میں بیٹھے مگروہ نہیں مانے، سپریم کورٹ میں ہرچیز کھلے طریقہ سے ہوتی ہے، کوئی چیز چھپائی نہیں جاتی،آپ بینچ میں اپنی مرضی کے ججز کاانتخاب نہیں کرسکتے یہ ادارے کوتباہ کردے گا۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ جس بینچ نے کیس سنا تھااس میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اخترکاکیا نمبر تھا وہ آپ کو قبول تھا۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ آپ چاہتے ہیں کہ آپ کی مرضی کے ججز لگائے جائیں، 10سال پہلے ذوالفقارعلی بھٹو کاریفرنس آیا کیوں فیصلہ نہیں ہوا، جو صدارتی ریفرنس دفنادیا گیا تھا ہم نے اسے سنا اوراپنی غلطیوں کوتسلیم کیا۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ بابر اعوان اس ریفرنس اوربھٹوریفرنس میں وکیل تھے انہیں کہنا چاہیئے تھا کہ بھٹوریفرنس کوپہلے سنیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ 21مارچ2022کو صدارتی ریفرنس دائر ہوااوراسی روز سماعت کے لئے بھی مقررہوگیا۔ چیف جسٹس کاکہنا تھاکہ بابر اعوان کدھر ہیں، گالیاں بھی ہم سنتے ہیں تاہم جواب نہیں دیتے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ کسی کمزور کے ساتھ بھی آج کی طرح کرتے توحالت دیکھتے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ولایت جاکرایسے کرکے دکھائیں، ہم ملک توڑنے والوں میں سے نہیں بلکہ بنانے والوں میں سے ہیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ بابر اعوان کالائسنس معطل ہوا تھا توبحال کس نے کیا تھا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ میں نے یہ کیس سنا تھا اورمیں اس بینچ میں نہ بیٹھ کرآئین کی خلاف ورزی نہیں کروں گا، کل کو میں کہوں نہیں آرہا توکیا یہ نظام کو چوک کرنے والی بات نہیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ابھی تک سید علی ظفر نے ایک بات میرٹ پر نہیں کی۔ سید علی ظفرکاکہنا تھا کہ جب تک فیصلہ نہیں کریں گے کہ بینچ قانونی ہے یاغیر قانونی تومیں کیسے دلائل دوں گا۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ میں کسی رکن کوکمیٹی اجلاس میں بیٹھنے پر مجبور نہیں کرسکتا، وو ارکان نے شرکت کی۔ سید علی ظفرکاکہنا تھا کہ وہ آرٹیکل 63-Aکے حوالہ سے اکثریتی فیصلہ کی حمایت کرتے ہیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ہوسکتا ہے کہ ہم فیصلہ کریں آپ سے متفق ہیں۔ سید علی ظفر کاکہنا تھا کہ میں ساتھ دلائل نہیں دوں گاپہلے بینچ کی تشکیل کے حوالہ سے فیصلہ کریں پھر آگے دلائل دوںگا۔ اس پر چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ہم پانچوں ارکان نے متفقہ طور پر آپ کے اعتراضات کومستردکردیا، اعتراضات کوبرقرارنہیں رکھا جاسکتا۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ہمیں سسپینس سے نکالیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 184-3کے کیسز میں چیف جسٹس، سینئر ترین جج اور چیف جسٹس کانامزدکردہ تو ساری عمر بیٹھ ہی نہیں سکتے، چیف جسٹس باقی بینچ بھی بناتے ہیں توپھر وہ کسی اوربینچ میں بھی نہ بیٹھیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ہم چاہتے ہیں سید علی ظفر میرٹ پر دلائل دیں۔ جسٹس نعیم اخترافغان کاکہنا تھا کہ میرٹ پر اپنے پوائنٹس بتادیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ نہ کھیلیں گے نہ کھیلنے دیں گے والی پالیسی نہیں چلے گی، کھیلنے دیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ معاملے کوآگے بڑھائیں۔ سید علی ظفر کاکہنا تھا کہ ہمیں اس وقت بحران کاسامنا ہے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ پلیز کیس پر دلائل دیں، فل کورٹ میٹنگ سے مجھے کوئی پریشانی نہیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ سگریٹ پینے کی عادت پڑجاتی ہے تووہ بڑی مشکل سے چھوٹتی ہے، وزن بڑھ جاتا ہے لیکن کم مشکل سے ہوتا ہے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ جو لوگ آمروں کے ساتھ سننے کے لئے کھڑے ہوتے تھے اس کوہم واپس نہیں آنے دیں گے، ہم نہ ملک اورنہ اداروں میں آمرانہ دورواپس آنے دیں گے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ معذرت کے ساتھ سید علی ظفر کیس نہیں چلانا چاہتے،کیا چیف جسٹس پر ماضی میں ممانعت نہیں تھی کہ کمیٹی بنالیتے۔جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ ہم اگلے چیف جسٹس سے کہیں گے کہ وہ اس معاملہ کودیکھیں کہ اگر کمیٹی کے تینوں ارکان نہ ہوں توکیا صورتحال ہوگی، دوارکان بھی ہوں توٹھیک ہے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ کیا ہمارے پاس کوئی اختیار ہے کہ کسی جج کوپکڑ کرلائیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ جج بتائے گاکہ میں نہیں آئوں گا۔چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ بلیکس لاء ڈکشنری دیکھیں اس میں inabilityکا کیا مطلب لکھا ہے۔ سید علی ظفر کاکہنا تھا کہ اس نظرثانی میں کیا جلدی ہے، کیا ایمرجنسی ہے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ کوئی جلدی نہیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ سید علی ظفر بتادیں کیوں کیس کی سماعت نہ ہو اورکیس کافیصلہ نہ ہو۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ میں نے کہا ہے کہ جتنے نظرثانی کے کیس ہیں انہیں لگائیں اورآج کل میرے بینچ میں لگ رہے ہیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ڈیڑھ بج گیا ہے ابھی تک ایک لفظ بھی میرٹ پر سید علی ظفر نے نہیں کہا، اگرایسا کریں گے توہم آدھی رات تک بھی بیٹھیں گے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ میرے عدالت میں پہلی یادوسری سماعت پر کیس کافیصلہ ہوجاتا ہے، یہ سب سے پرانا نظرثانی کاکیس ہے۔ اس پر سید علی ظفر کاکہنا تھا کہ پھر میں مطمئن ہوں۔ چیف جسٹس کاسید علی ظفرسے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آگرآپ کی کوئی نظرثانی نہ لگی ہوتوفوری طور پربراہ راست درخواست مجھے بھجوادیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ نظرثانی کے پوائنٹس پر جواب دے دیں، آرٹیکل 63-Aکے تحت کسی بھی رکن نے ووٹ دینا ہے، اگرایسا نہ کرے توپارٹی سربراہ نوٹس دے گا پھر اسپیکر یا چیئرمین سینیٹ فیصلہ کرے گااورپھر معاملہ الیکشن کمیشن کو بھجوائے گااورپھر ہمارے پاس اپیل میں معاملہ آئے گا، ہم نے اپنا اپیل کادائرہ اختیارختم کرلیا،اگر ووٹ شمار نہیں ہونا تو مثال کے طور پر شہباز شریف آج وزیر اعظم ہیں ، پارٹی والے خودان سے تنگ آجائیں وہ عدم اعتمار لانا چاہیں تووہ پھر ہوہی نہیں سکتا، آئین کے آرٹیکل 95اور136جو کہ وزیر اعظم اوروزیر اعلیٰ کے خلاف تحریک عدم کے حوالہ سے ہیں وہ تو بے مقصد ہو گئے، اس کامطلب ہے وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ پوری پانچ سالہ مدت کے لئے منتخب ہوا ہے، برطانیہ میں بھی ایسا نہیں، امریکہ میں اورنظام ہے وہاں صدر کامواخذہ ہوسکتا ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاسید علی ظفر سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ کو ہماری مدد کرنی چاہیئے تھی ہم جسٹس منیب اخترکے پاس جرگہ لے کرجاتے کیاکرتے۔ سید علی ظفر کاکہنا تھا کہ ادارے کے لئے کچھ کریں، مہربانی کرکے کچھ کریں، فیصلہ لکھنے والے جج کے بغیر یہ بینچ کاروائی نہیں کرسکتا۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ مجھے اوپر جواب دینا ہے میںنظرثانی میں پوچھتا ہوں فیصلے میں غلطی کیا ہے ، غلطی ہوتونوٹس بھی جاری کردیتے ہیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ میں سید علی ظفر کی مہارت کو مان گیا ہوں کہ کیس نہیں چلنے دیا۔ سید علی ظفرکاکہنا تھا کہ مجھے اپنے مئوکل سے پوچھنے دیں کہ میرٹ پر دلائل دینے ہیں کہ نہیں، کل آکر بتادوں گا۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کیا اڈیالہ جیل پنجاب میں ہے، پنجاب کاکوئی لاء افسر موجود ہے، فوری طور پر عمران خان سے سید علی ظفر کی ملاقات کروائیں ، ایڈیشنل اٹارنی جنرل چوہدری عامر رحما ن فوری بات کریں اور ملاقا ت کروائیں، کل دن 10بجے تک ملاقات کروائیں ، رات چاہیں رات جائیں اورکل صبح چاہیں توصبح جائیں، دودفعہ ملاقات کرنا چاہیں تودودفعہ مل لیں۔ اس موقع پر فاروق حمید نائیک نے پیش ہوکربتایا کہ آئین کے آرٹیکل 186اورآرٹیکل184-3کاالگ الگ دائرہ اختیار ہے، آئین کے آرٹیکل 186کے تحت عدالتی رائے کو مانا جانا ضروری نہیں جبکہ آئین کے آرٹیکل 184-3کے تحت جوڈیشل آرڈر ہوتا ہے۔ فاروق نائیک کاکہنا تھا کہ برطانیہ اورامریکہ سمیت دیگر ممالک میں فلورکراسنگ کی اجازت ہے، بھارت میں پاکستان کی طرح قانون ہے لیکن ووٹ گنا جاتا ہے۔فاروق نائیک کاکہنا تھا کہ جب وہ پی پی دورمیں وزیر قانون تھے توصدر آصف علی زرداری نے مجھے کہا تھا کہ ایسا قانون نہ بنائیں جوکل ہمارے سامنے آجائے۔ چیف جسٹس کاسید علی ظفر سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ نے بڑی کوشش کی مگر ہم آپ سے ناراض نہیں ہوں گے۔ اس موقع پر فاروق نائیک کاکہنا تھا کہ آج کی سماعت کے بعد لازم ہو گیا ہے کہ آئینی عدالت ہونی چاہیئے۔ فاروق نائیک کاکہنا تھا کہ وہ پاکستان بارکونسل کے وائس چیئرمین ہیں وہ بدتمیزی کرنے والے وکیل کونوٹس دیں گے۔ عدالت نے کیس کی مزید سماعت کل (جمعرات)دن ساڑھے 11بجے تک ملتوی کردی۔