Supreme Court

105ملزمان کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل ہو گیا اُن کادوبارہ ٹرائل نہیں ہوگا،جسٹس امین الدین خان
9مئی کو جو عمل ہوا تھا وہ جرم تھاتاہم دیکھنا ہے کہ فوجی عدالتوں میں ٹرائل ہوگا یا سویلین عدالتوں میں کیس چلے گا،جسٹس جمال مندوخیل
عدالتی فیصلے میں کلین چٹ نہیں دی کہ ملزمان بری ہوگئے ہیں،دوران سماعت ریمارکس

اسلام آباد(ویب  نیوز)

سپریم کورٹ آف پاکستان کے آئینی بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین خان نے کہا ہے کہ اگرایف آئی آر میں 10دفعات ہیں جن میں سے 4آرمی ایکٹ کے تحت ہیں اورباقی سول ہیں توپھر ٹرائل کہاں ہوگا۔ 105ملزمان کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل ہو گیا اُن کادوبارہ ٹرائل نہیں ہوگا، دیگر 5ہزار ملزمان کاسول عدالتوں میں ٹرائل ہوگا۔جبکہ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے ہیں کہ یہ ناانصافی ہو گی کہ فوجی ٹرائل میں سزا کے بعد سول ٹرائل ہو اس طرح تو ساری زندگی کیسز چلتے رہیں گے۔  9مئی کو جو عمل ہوا تھا وہ جرم تھاتاہم دیکھنا ہے کہ فوجی عدالتوں میں ٹرائل ہوگا یا سویلین عدالتوں میں کیس چلے گا،عدالتی فیصلے میں کلین چٹ نہیں دی کہ ملزمان بری ہوگئے ہیں۔ 21ویں ترمیم میں کہا گیا کہ سیاسی جماعتوں کے کیسزفوجی عدالت میں نہیں چلیں گے، جرم ہوا ہے اس میں کوئی شک نہیں، انسداددہشت گردی قانون میں ان جرائم کے حوالہ سے زیادہ سزائیں ہیں، سزا میں معافی بھی نہیں ملتی، بے دہشت گرد ہوں ان کوبھی حقوق دیتے ہیں اور فیئرٹرئال کا موقع دیا گیا ہے ، کیا سیاسی احتجاج کے کیسز دہشت گردوں سے بھی زیادہ خطرناک ہیں۔ جبکہ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے ہیں کہ 9مئی واقعہ کے 5ہزار سے زائد ملزمان میں سے 105کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل کیا گیا۔ 9مئی کو ملزمان اگر قتل کرتے، ڈکیٹی کرتے یا اگر گاڑیاں چھین کرلے جاتے تواُن کاٹرائل کہاں ہوتا۔جبکہ جسٹس سید حسن رضوی نے ریمارکس دیئے ہیں کہ ایک پولیس اہلکار کی وردی پھاڑدی تو وہ تعزیرات پاکستان میں جرم ہے،یہاں کور کمانڈر لاہورکے گھر پرحملہ ہوا ہے، ساراگھر جلایا گیا، ایک دن ایک ہی وقت پرمختلف جگہوں پر فوجی تنصیبات پر حملے ہوئے، عسکری کیمپ آفسز پر حملے ہوئے، پشاور میں ریڈیو پاکستان کی عمارت کو جلایا گیا، ماضی میں لوگ شراب خانوںپراحتجاج کرتے تھے اور توڑ پھوڑ کرتے تھے، اب وزیر اعلیٰ ہائوس یا گورنر ہائوس پر احتجاج کیا جاتا ہے، لیکن پہلی مرتبہ ایسا ہوا کہ 5سے زائد شہروں میں ایک وقت پر فوجی تنصیبات پر حملے ہوئے، جرم ہوا ہے تاہم دہشت گردوں اور سویلینز کے درمیان امتیاز کرنا پڑے گا۔ عدالت کو ایسا مواد تو دکھا سکتے تھے کہ یہ لوگ اندر گھسے اور یہ کارنامے انجام دیئے۔وزارت دفاع کے وکیل میراسوال بھی باسکٹ میں رکھ لیں ، کتنے لوگوں نے بیان دیا اور کتنے وعدہ معاف گواہ بنے کہ انہوں نے کس کے کہنے پر حملہ کیا۔ جبکہ بینچ نے وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث احمد کوہدایت کی ہے کہ وہ سوموارکے روز اپنے دلائل مکمل کریں۔سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میںجسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس سید حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس نعیم اخترافغان اورجسٹس شاہد بلال حسن پر مشتمل 7رکنی لارجر بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف دائر39 انٹرا کورٹ اپیلوں پرسوموار کے روز بھی سماعت جاری رکھی۔ وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث احمد کے دلائل مکمل نہ ہوسکے اور سوموار کے روز بھی اپنے دلائل جاری رکھیں۔ خواجہ حارث کااپنے دلائل میں کہنا تھا کہ آرمی ایکٹ اور رولز میں فیئر ٹرائل کا مکمل پروسیجر فراہم کیا گیا ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل کا خواجہ حارث سے استفسار کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ سویلینز کے فوجی ٹرائلز کے حوالہ سے جسٹس منیب اختر،جسٹس عائشہ اے ملک اور جسٹس یحییٰ خان آفریدی کے فیصلوں میں سے کس فیصلے سے اتفاق کرتے ہیںیا جزوی طور پر اتفاق کرتے ہیں۔ اس پر خواجہ حارث کاکہنا تھا کہ میں کسی فیصلے کے ساتھ اتفاق نہیں کرتا، جسٹس عائشہ ملک نے سیکشن 2 ون ڈی ون کو فیئر ٹرائل کے منافی قرار دیا جبکہ جسٹس آفریدی نے قانونی سیکشنز پر رائے نہیں دی، جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ قانونی سیکشنز پر لارجر بینچز کے فیصلوں کا پابند ہوں۔جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ 9مئی کے کیسز پر ماضی کے فیصلوں کااطلاق نہیں ہوتا۔ خواجہ حارث کاکہنا تھا کہ عام جلسے اورفوجی تنصیبات پر حملے میں بڑا فرق ہے۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ 21 ویں ترمیم میں فیصلے کی اکثرت کیا تھی؟ خواجہ حارث نے جواب دیا کہ 21ویں ترمیم کا اکثریتی فیصلہ 8 ججز کا ہے، 21 ترمیم کو اکثریت ججز نے اپنے اپنے انداز سے ترمیم کو برقرار رکھا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ 21ویں ترمیم کو 8 سے زیادہ ججز نے درست قرار دیا۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے عدالتی عملے کوہدایت کی کہ وہ فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائلز کیس کاریکارڈ پیش کریں۔ جب عدالتی عملے نے ریکارڈ پیش کیا تواس میں بتایا گیا تھا کہ اٹارنی جنرل کومعاونت کانوٹس جاری کیا گیا تھا۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ اٹارنی جنرل کومعاونت کانوٹس دیا گیا تھا۔ جسٹس سید حسن رضوی کاکہنا تھا کہ 2-1-d-1پر دلائل بھی ہوئے ہیں۔ جسٹس سید حسن اظہررضوی کاخواجہ حارث سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کیا یہ نقطہ اپیل میں اٹھایا ہے کہ بینچ نے 2-1-d-1کے حوالہ سے دلائل نہیں سنے۔جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ کیا 21ویں ترمیم کیس میں کسی جج نے ایف بی علی کیس پر جوڈیشل نظر ثانی کی رائے دی؟ اس پروکیل وزارت دفاع خواجہ حارث نے بتایا کہ کسی جج نے نہیں کہا کہ ایف بی علی فیصلے پر جوڈیشل ریویو ہونا چاہیے، جسٹس یحییٰ آفریدی نے 9مئی ملٹری ٹرائل پر رائے دی آرمی ایکٹ کی شقوں پر فیڈریشن کو مکمل سنا ہی نہیں گیا۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل چوہدری عامر رحمان نے دلائل میں کہا کہ بینچ نے اٹارنی جنرل کو کہا تھا دلائل آرمی ایکٹ کی شقوں کے بجائے نو اور دس مئی واقعات پر مرکوز رکھیں۔جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ یہ تو عجیب بات ہے، پہلے کہا گیا آرمی ایکٹ کی شقوں پر بات نہ کریں، پھر شقوں کو کالعدم بھی قرار دے دیا گیا۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ ایڈووکیٹ فیصل صدیقی نے تو عدالت میں کھڑے ہو کر کہا تھا ہم نے آرمی ایکٹ کی شقوں کو چیلنج ہی نہیں کیا۔جسٹس محمد علی مظہر نے ویڈیو لنک پر موجود فیصل صدیقی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ کیا آپ نے یہ بات سن لی ہے۔ا س پر ایڈووکیٹ فیصل صدیقی نے کہا کہ جی میں نے کہا تھا کیس کو آرمی ایکٹ کے بجائے آئین کے تحت دیکھا جائے، نو مئی واقعات کے خلاف دیگر درخواستیں دائر کی گئیں جن میں آرمی ایکٹ کی شقوں کو چیلنج کیا گیا تھا۔خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ آرمی ایکٹ کی شق ٹو ون ڈی ون اور ٹو ون ڈی ٹو کو کالعدم قرار دینے سے قبل وفاق کو مکمل شنوائی کا حق ملنا چاہیے تھا، عدالت کا فوکس نو اور دس مئی واقعات پر تھا نہ کہ آرمی ایکٹ کی شقوں پر، احتجاج اور حملہ میں فرق ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ قانون چیلنج ہوا تھا اس لئے اٹارنی جنرل کوبینچ نے اپنے پہلے آرڈر میں معاونت کے لئے نوٹس جاری کیا تھا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاایڈیشنل اٹارنی جنرل چوہدری عامررحمان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اگر وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث اور اٹارنی جنرل دونوں دلائل دیں گے توپھر ایک ماہ بھی دلائل ختم نہیں ہوں گے۔ اس پر چوہدری عامر رحمان کاکہنا میں اٹارنی جنرل آفس کی جانب سے معاونت کے لئے پیش ہورہا ہوں،کیس میں اٹارنی جنرل دلائل دیں گے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ 9مئی کو جو عمل ہوا تھا اوہ جرم تھاتاہم دیکھنا ہے کہ فوجی عدالتوں میں ٹرائل ہوگا یا سویلین عدالتوں میں کیس چلے گا،عدالتی فیصلے میں کلین چٹ نہیں دی کہ ملزمان بری ہوگئے ہیں۔خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ فوجی ٹرائل سے متعلق سپریم کورٹ کا لیاقت حسین کیس کا فیصلہ 9 ججز کا ہے، لیاقت حسین کیس میں ایف بی علی کیس کی توثیق ہوئی۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہنا تھا کہ 21ویں ترمیم کیس میں اکثریت ججز نے ایف بی علی کیس کو تسلیم کیا ہے۔جسٹس امین الدین خان کا کہنا تھا کہ 21 جولائی 2023 کے آرڈر میں صرف 9 مئی کی بات کی گئی ہے۔جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ جرائم قانون کی کتاب میں لکھے ہیں، کتاب سے ہی جرائم دیکھیں گے، پی پی سی میں قتل کی دفعہ 302ہے جبکہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ میں جو جرائم ہیں وہی ہوں گے، 2023میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ میں ترمیم آئی اس کااطلاق ماضی نہیں ہوسکتا، اگر جرم آرمی ایکٹ میں فٹ ہوگا تو ٹرائل فوجی عدالت میں ہوگا۔ جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ 21ویں ترمیم میں کہا گیا کہ سیاسی جماعتوں کے کیسزفوجی عدالت میں نہیں چلیں گے، جرم ہوا ہے اس میں کوئی شک نہیں، انسداددہشت گردی قانون میں ان جرائم کے حوالہ سے زیادہ سزائیں ہیں، سزا میں معافی بھی نہیں ملتی، بے دہشت گرد ہوں ان کوبھی حقوق دیتے ہیں اور فیئرٹرئال کا موقع دیا گیا ہے ، کیا سیاسی احتجاج کے کیسز دہشت گردوں سے بھی زیادہ خطرناک ہیں، 21ویں ترمیم کی وجہ سے سیاسی کیسز فوجی عدالتوں میں آئے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ ہرفوجداری کیس کے اپنے حقائق ہوتے ہیں، کیا وہ ایف بی علی کیس میں فٹ ہوررہے ہیں کہ نہیں۔ خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ سیاسی سرگرمی کی ایک حد ہوتی ہے، ریاستی املاک پر حملہ ریاست کی سیکیورٹی توڑنا سیاسی سرگرمی نہیں۔جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہنا تھا کہ 21ویں ترمیم کے بغیر دہشت گردوں کے خلاف ملٹری ٹرائل نہیں ہو سکتا تھا۔ خواجہ حارث نے کہا کہ 21ویں ترمیم میں قانون سازی دیگر مختلف جرائم اور افراد پر مبنی تھی۔جسٹس سید حسن رضوی کاکہنا تھا کہ ایک پولیس اہلکار کی وردی پھاڑدی تو وہ تعزیرات پاکستان میں جرم ہے،یہاں کور کمانڈر لاہورکے گھر پرحملہ ہوا ہے، ساراگھر جلایا گیا، ایک دن ایک ہی وقت پرمختلف جگہوں پر فوجی تنصیبات پر حملے ہوئے، عسکری کیمپ آفسز پر حملے ہوئے، پشاور میں ریڈیو پاکستان کی عمارت کو جلایا گیا، ماضی میں لوگ شراب خانوںپراحتجاج کرتے تھے اور توڑ پھوڑ کرتے تھے، اب وزیر اعلیٰ ہائوس یا گورنر ہائوس پر احتجاج کیا جاتا ہے، لیکن پہلی مرتبہ ایسا ہوا کہ 5سے زائد شہروں میں ایک وقت پر فوجی تنصیبات پر حملے ہوئے، جرم ہوا ہے تاہم دہشت گردوں اور سویلینز کے درمیان امتیاز کرنا پڑے گا۔جسٹس مسرت ہلالی کاکہنا تھا کہ کیااُس دن کسی پولیس اسٹیشن پر حملہ ہواتھا۔جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ کتنی جگہوں اور شہروں میں حملہ ہوا۔ اس پر خواجہ حارث کاکہنا تھا کہ کورکمانڈر ہائوس لاہور، گوجرانوالہ کینٹ ، جی ایچ کیو راولپنڈی، آئی ایس آئی آفس فیصل آباد، ریڈیو اسٹیشن پشاور، بنوں کینٹ اور میانوالی ایئربیس پر حملہ ہوا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ پر حملہ ہوا توفوجی ٹرائل کیوں نہ ہوا، پارلیمنٹ سب سے سپریم ادارہ ہے ، کیا پارلیمنٹ خود پر حملے کو توہین نہیں سمجھتی۔جسٹس سید حسن رضوی کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ پر بھی حملہ ہوا وہ بھی سنگین تھا، سپریم کورٹ کو بھی شامل کریں۔ خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ یہاں بات 2 ون ڈی ون کی ہے۔جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ9مئی واقعہ کے 5ہزار سے زائد ملزمان میں سے 105کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل کیا گیا۔ جسٹس سید حسن اظہر رضوی کاکہنا تھا کہ عام پریکٹس یہی ہے کہ اگر ایک فوجی اہلکار اور چھ سویلین اگر کوئی قتل کر دیں، یا ڈکیٹی کی واردات کریں تو سویلین کا ٹرائل الگ چلے گااورفوجی اہلکار کے خلاف کورٹ مارشل کی کارروائی ہوگی۔جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ ہمارے سامنے کوئی انفرادی طور پر نہیں آیا، صرف ایک والد ہیں۔ خواجہ حارث کاکہنا تھا کہ 9مئی واقعات میں جہاں حملے ہوئے کیا وہ ممنوعہ جگہ تھی، یہ حقائق کا سوال ہے، حملہ کرنے والوں کی نیت کیا تھی یہ بھی حقائق کا سوال ہے، سپریم کورٹ حقائق کا جائزہ نہیں لے سکتی۔جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ ہم نے 9مئی واقعات میں سزا یافتہ کسی شخص کو اپیل کرنے یا رحم کی اپیل کرنے سے روکا نہیں۔ جسٹس امین الدین خان کاکہنا تھا کہ ہم نے پہلے ہی کہا ہے کہ ہم اپیل کرنے کاوقت دیں گے۔جسٹس سید حسن اظہر رضوی کاکہنا تھا کہ عدالت کو ایسا مواد تو دکھا سکتے تھے کہ یہ لوگ اندر گھسے اور یہ کارنامے انجام دیئے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ ہم نے تصویری ثبوت بھی دیے ہیں۔ جسٹس سید حسن اظہر رضوی کا کہنا تھا کہ تصاویر میں پراپرٹی کا نقصان تو نظر آرہا ہے، کیا کوئی دفاعی اداروں کااہلکار زخمی ہوا یا خدا نہ خواستہ کسی کی موت ہوئی، جائیدادوں کونقصان پہنچانے کی تصاویر توہیں کیا ان 103افراد میں سے کسی پر کسی فوجی اہلکار کو مارنے یازخمی کرنے کاالزام ہے، کیا سامان لے کرگئے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ کیا کسی سے کوئی چیز برآمد ہوئی۔ اس پر خواجہ حارث کاکہنا تھا کہ دیکھنا چاہیں گے تودکھا دیں گے۔خواجہ حارث کاکہنا تھا کہ حملہ کرنے والے مسلح ہو کرآئے ، مسلح افراد کے ہاتھوں لوگ زخمی بھی ہوئے، اس حوالے سے مزید عدالتی معاونت بھی کروں گا۔جسٹس مسرت ہلالی کا کہنا تھا کہ ایف آئی آر میں درج سول جرائم کے ٹرائل کا کیا بنا۔جسٹس سید حسن اظہررضوی کاکہنا تھا کہ کسی آرمی اہلکار یا فیملی کی کوئی موت واقع ہوئی۔جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ یا جولوگ آئے تھے ان میں سے کسی کی موت ہوئی۔جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ آرمی ایکٹ میں جوپروسیجر دیا گیا ہے فوجی عدالتیں اس پر عمل کرنے کی پابند ہیں، اگرانفرادی طورپر عمل نہیں ہوا تو اس کے خلاف اپیل دائر ہوسکتی ہے۔جسٹس سید حسن اظہر رضوی کاخواجہ حارث سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھاکہ آپ اپنے طریقہ سے بتائیں جس طرح بتانا چاہیں۔ جسٹس مسرت ہلالی کاکہنا تھا کی پی پی سی اور انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعات کاکیاہوا۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ دو جگہوں پر ٹرائل نہیں ہوسکتا۔ جسٹس امین الدین خان کاکہنا تھا کہ اگرایف آئی آر میں 10دفعات ہیں جن میں سے 4آرمی ایکٹ کے تحت ہیں اورباقی سول ہیں توپھر ٹرائل کہاں ہوگا۔ جسٹس محمد علی مظہر کاخواجہ حارث سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کیا سارے سیکشنز پر آپ ہی کیس چلائیں گے ، 105افراد کولے لیں فرد جرم توعائد ہوئی ہوگی۔ جسٹس مسرت ہلالی کاکہنا تھا کہ 9 مئی کے وقت میں چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ تھی اور میں سول کپڑوں میں سیکیورٹی اہلکاروں کے ہمراہ جارہی تھی کہ کینٹ کی طرف جانے والی روڈ پر شدید فائرنگ ہو رہی تھی، دہشت پھیلی ہوئی تھی مجھے پولیس والوں نے آگے جانے سے روک دیا، کیا فوجی دفعات کے علاوہ دیگر دفعات کے تحت ٹرائل ہوا کہ نہیں، آرمی نے صرف ان جرائم کاٹرائل کیا جو فوجی تنصیبات پر حملے ہوئے تھے۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ 9مئی کو ملزمان اگر قتل کرتے، ڈکیٹی کرتے یا اگر گاڑیاں چھین کرلے جاتے تواُن کاٹرائل کہاں ہوتا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ یہ ناانصافی ہو گی کہ فوجی ٹرائل میں سزا کے بعد سول ٹرائل ہو اس طرح تو ساری زندگی کیسز چلتے رہیں گے۔ جسٹس مسرت ہلالی کاکہنا تھا کہ یہ تونہیں کہ یہاں سزاپوری کریں اور باہرجائیں تو دیگر دفعات آجائیں کہ اس میں سزا نہیں ہوئی۔ جسٹس امین الدین خان کاکہنا تھا کہ 105ملزمان کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل ہو گیا اُن کادوبارہ ٹرائل نہیں ہوگا، دیگر 5ہزار ملزمان کاسول عدالتوں میں ٹرائل ہوگا۔جسٹس مسرت ہلالی کاکہنا تھا کہ میری نظر سے جوایف آئی آرز گزری ہیں ان میں پہلے آرمی ایکٹ کی دفعات شامل نہیں تھیں انہیں بعد میں شامل کیا گیا، پشاور کے علاقہ ہشت نگری میں اسلحہ کی بڑی دوکان لوٹی گئی اس کاکیس کدھر چلے گا، آدمی کانقصان ہوا، اس دکان پر چوری کی واردات کے ٹرائل کا کیا ہوا۔جسٹس سید حسن اظہررضوی کاکہنا تھا کہ ہوسکتا ہے اُس کی ایف آئی آر کٹی ہو۔ جسٹس سید حسن اظہررضوی کاخواجہ حارث سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ میراسوال بھی باسکٹ میں رکھ لیں ، کتنے لوگوں نے بیان دیا اور کتنے وعدہ معاف گواہ بنے کہ انہوں نے کس کے کہنے پر حملہ کیا۔جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ ایک ایف آئی آر میں 18 سیکشنز لگے تھے، 18 میں تین جرائم ملٹری کورٹ سے متعلقہ تھے، باقی 15 جرائم کا ٹرائل کہاں پر ہوا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہنا تھا کہ باقی جرائم کا ٹرائل بھی ملٹری کورٹ کرے گی۔بعد ازاں جسٹس امین الدین خان کاکہنا تھا کہ ہم کیس کی سماعت سوموار تک ملتوی کررہے ہیں۔جسٹس امین الدین خان کا کہنا تھا کہ سوموار کو پورا دن کیس سنیں گے۔ خواجہ حارث نے کہا کہ اگر ممکن ہو تو کیس کو منگل تک لے جائیںمیری سوموار کے روز لاہور میں اہم مصروفیت ہے۔تاہم بینچ کے سربراہ نے خوجہ حارث کی استدعا مسترد کردی۔ جسٹس نعیم اختر افغان کا کہنا تھا کہ ہم سارے مقدمات ڈی لسٹ کر چکے ہیں۔ جسٹس مسرت ہلالی کا کہناتھا کہ خواجہ صاحب آپ کیس مکمل کرنے کا ہر روز وعدہ کرتے ہیں پھر توڑ دیتے ہیں۔جسٹس امین الدین خان کاکہنا تھا کہ خواجہ حارث سوموار کے روز دلائل مکمل کریں پھر ہم نے دیگر درخواست گزاروں کے وکلاء کو بھی سننا ہے، دیگر درخواست گزاروں کے وکلاء سوموار کے روز تیاری کرکے آئیں۔ جسٹس نعیم اخترافغان کاکہنا تھا کہ 28سزایافتہ ملزمان کالب لباب آیا ہے جس کے مطابق دوملزمان محمد عمران اورجان محمد کے علاوہ سب کو آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی دفعہ 3کے تحت ٹرائل ہوا، دستاویزات میں ایف آئی آرز کاذکر نہیںاوردیگر پی پی سی اورآفیشل سیکرٹ ایکٹ کی دفعات ہیں، کس طرح لوگ انسداد دہشت گردی عدالتوں میں چلے گئے اور کس طرح فوجی عدالتوں میں چلے گئے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاخواجہ حارث سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ کی ٹوکری بھر گئی ہے تونئی ٹوکری لے لیں اور میرا ایک سوال بھی لے لیں۔ جسٹس مسرت ہلالی کاکہنا تھا کہ ہرجرم کی الگ فردجرم عائد ہوتی ہے۔ اس کے بعد بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین خان نے تھینک یو کہا اور ججز کمرہ عدالت سے واپس روانہ ہوگئے۔