- فنڈز مل بھی جائیں تو 90 روز میں الیکشن ہونگے؟، نہیں ہونگے
- خیبرپختونخوااورپنجاب اسمبلیاں ٹوٹنے سے متعددمسائل نے جنم لیا
- الیکشن اکتوبر میں ہونے دیں، کچھ نہیں ہوگا
- پاکستان میں دوبارہ کھڑے ہونے کی صلاحیت ہے، آدھے سے زیادہ کا وقت قانونی چارہ جوئی میں لگا ہے، ہمیں کام کرنے دیں
- وزیرخزانہ کا قومی اسمبلی میں اظہار خیال
اسلام آباد (ویب نیوز)
وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ فنڈز مل بھی جائیں تو 90 روز میں الیکشن نہیں ہو سکتے،خیبرپختونخوااورپنجاب اسمبلیاں ٹوٹنے سے متعددمسائل نے جنم لیا،عدالتی حکم پرآئین سے انحراف کرکے رقم جاری نہیں کرسکتے۔قومی اسمبلی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ اگر 63 کو ری رائٹ نہ کیا جاتا تو پورے ملک میں الیکشن ایک وقت میں ہوتے، دو اسمبلیوں کی تحلیل سے تمام خرابیوں نے جنم لیا، دو اسمبلیاں تحلیل نہ ہوتیں تو اتنی خرابیاں نہ ہوتیں۔انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے دو اسمبلیوں کے انتخابات کے لیے 14.4 ارب اضافی اخراجات مانگے، الیکشن کمیشن کی جانب سے عام انتخابات کے لیے 54 ارب کا مطالبہ تھا، الیکشن کمیشن سے بات چیت کر کے 47.4 ارب اخراجات طے ہوئے تھے۔اسحاق ڈار نے کہا کہ 2 اسمبلیاں توڑ کر ملک میں افراتفری پھیلانے کی کوشش کی گئی، اگر کورٹ کا آرڈر ہے تو پروسیجر کے بغیر نہیں ہو سکتا، ہم نے آرٹیکل 81ای کا سہارا لیا اور معاملے کو کابینہ لے گئے۔انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت کہہ رہی ہے کہ ہم اس فیصلے کو مانتے ہی نہیں، کابینہ نے کہا فیصلہ 4 ، 3 کا ہے جسے مانتے ہیں، عدالتی حکم میں کہا گیا کہ سٹیٹ بینک رقم جاری کرے، آئین میں ایسا سسٹم نہیں کہ سٹیٹ بینک خود پیسے جاری کر دے۔وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ عدالتی حکم اپنی جگہ لیکن آئین سے انحراف کر کے فنڈز جاری نہیں کر سکتے، سٹیٹ بینک اپنے اختیار سے فنڈز جاری نہیں کر سکتا، جب تک قانونی طریقہ کار اختیار نہیں کیا جاتا کوئی ادارہ فنڈز جاری نہیں کر سکتا۔انہوں نے کہا کہ ایوان تین دفعہ اپنا فیصلہ سنا چکا ہے، اگر پیسے مل بھی جائیں تو کیا 90 دن کے اندر الیکشن ہو جائیں گے؟ محترمہ کی شہادت کے بعد الیکشن آگے چلے گئے تھے، وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا کہ جنرل الیکشن کے لیے بجٹ 2022-23 میں 50 ارب کی فراہمی کا کہا گیا ہے، جبکہ فنانس ڈویژن نے 47 اعشاریہ 4 ارب مختص کئے ہیں۔ مجموعی طور پر انتخابات میں 61 ارب 62 کروڑ روپے خرچ ہوں گے۔انہوں نے کہا کہ پورے سال میں بجٹ رقم سے آگے جاتے ہیں تو وزارت اِدھر ادھر سے فنڈز کاٹتی ہے یا پھر اسے ایکسٹرا دینا ہوتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن نے اس حوالے سے کوئی سمری پیش نہیں کی، ای سی سی یا کابینہ خود سے تو کچھ نہیں کرسکتی۔ یہ فیصلہ ہوا میں تو نہیں کیا جاسکتا، سمری کے بغیر ای سی سی یا کابینہ میں فیصلہ نہیں ہوسکتا۔وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ ایوان کو حق ہے کیا فیصلہ کرنا ہے، سوال اٹھ رہا ہے کہ منی بل کیسے مسترد ہوگیا، نمائندگان کو حق ہے کہ کوئی فیصلہ نہ مانیں۔ان کا کہنا تھا کہ پھر حکم آیا مرکزی بینک رقم ادا کرے، اس کا آپریٹر فنانس ڈویژن ہے اسٹیٹ بینک نہیں، سپلمنٹری گرانٹ کا عمل مکمل ہونے تک فنانس کچھ نہیں کرسکتی۔اسحاق ڈار نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے کو دوبارہ نہ لکھا جاتا تو پورے ملک میں الیکشن ایک وقت میں ہوتے، ایک ڈویلپمنٹ سے کافی خرابیوں کا جنم ہوا، دنیا حیران ہے کہ 63 اے کی نئی تشریح کیسے آئی، اس تشریح سے تمام برائیوں نے جنم لیا۔اسحاق ڈار نے سپریم کورٹ کے 19 اپریل کے آرڈر کا پیراگراف 8 بھی ایوان میں پڑھ کر سنایا، اور کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلہ میں سخت الفاظ استعمال کئے گئے، کیا یہاں بیٹھے لوگوں کو کچھ نہیں پتہ، کیا مردم شماری پر ہاوس 35 ارب خرچ نہیں کررہا، اربوں روپے خرچ کرنے کے بعد پچھلی مردم شماری پر الیکشن کرا دیتے ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ کیا پاکستان ان تماشوں کا متحمل ہوسکتا ہے، پاکستان ایک بدترین معاشی بحران سے نکل رہا ہے، اس بحران کی ذمہ دار ماضی کی حکومت ہے۔وزیر خزانہ نے کہا کہ 126 ارب اسٹاک ایکسچینج کی ویلیو تھی، پھر پانامہ ڈرامہ اور سلیکٹڈ کو لاکر بٹھا دیا گیا، آج ہم کدھر کھڑے ہیں، 47 ویں معیشت، رونے کا مقام ہے۔ان کا کہنا تھا کہ اگر الیکشن ایک دن میں نہ ہوں تو کون سے آفت آجائے گی۔اسحاق ڈار نے کہا کہ 5 سال پہلے میری بات مان لیتے تو آج پاکستان اس مشکل میں نہ ہوتا، ملک کو تباہ کرنے والے چند بندے تھے، انہوں نے پاناما کا ڈرامہ کیا اور نوازشریف کو نااہل کیا، یہ نہ ہوتا تو پاکستان آج کچھ اور پاکستان ہوتا۔انہوں نے کہا کہ معاشی مسائل اس حکومت نے نہیں پیدا کئے، یہ مسائل حکومت کو ورثے میں ملے ہیں، دنیا پریشان ہے کہ پاکستان کیسے دیوالیہ نہیں ہوا، پاکستان کی ایک پیمنٹ تاخیر کا شکار نہیں ہوئی۔انہوں نے زور دیا کہ الیکشن اکتوبر میں ہونے دیں، کچھ نہیں ہوگا، ایک ایک ارب کے لیے ہمیں ملکوں ملکوں جانا پڑا، پاکستان میں دوبارہ کھڑے ہونے کی صلاحیت ہے، آدھے سے زیادہ کا وقت قانونی چارہ جوئی میں لگا ہے، ہمیں کام کرنے دیں۔۔