کراچی  (ویب ڈیسک)

بینک دولت پاکستان نے قابلِ تجدید توانائی کے منصوبوں میں کمپنیوں کی سرمایہ کاری کو فروغ دینے کے لیے اپنی مالکاری اسکیم برائے قابلِ تجدید توانائی کے تحت متعلقہ سلوشن پرووائڈرز کے لیے شرائط نرم کر دی ہیں۔ قابلِ تجدید توانائی کے منصوبوں/ سالیوشنز کی تنصیب میں دلچسپی رکھنے والی تمام ری نیو ایبل انرجی انویسٹمنٹ اینٹی ٹیز (RE-IEs) کو اب اسکیم کے کیٹیگری تھری کے تحت ری فنانس حاصل کرنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔ آر ای  آئی ای ایسا کاروباری ادارہ (بشمول وینڈر اور سپلائر) ہوتا ہے جس کا کام قابلِ تجدید توانائی کے منصوبے قائم کرنا اور بعد میں بالاقساط ادائیگی پر اسے لیزنگ/ کرائے پر/ فروخت کر دینا ہوتا ہے، یا پھر ان منصوبوں سے بننے والی بجلی عام صارف کو فروخت کرنا ہوتا ہے۔یاد رہے کہ توانائی کی قلت اور بدلتے ہوئے ماحول کا چیلنج حل کرنے میں مدد دینے کے مقصد سے اسٹیٹ بینک نے اپنی مالکاری اسکیم برائے قابلِ تجدید توانائی پر جولائی 2019 میں نظرِ ثانی کی تھی۔ اسٹیٹ بینک نے اس اسکیم کا شریعت سے ہم آہنگ ورژن بھی اگست 2019 میں شروع کیا تھا۔ اسکیم اب تین کیٹیگریز پر مشتمل ہے۔ کیٹیگری ون  کے تحت قابلِ تجدید توانائی کے ایک میگا واٹ سے 50 میگا واٹ تک گنجائش والے بجلی کے منصوبے قائم کرنے کی اجازت ہے، اور یہ بجلی خود بھی استعمال کی جا سکتی ہے یا پھر نیشنل گرڈ کو فروخت کی جا سکتی ہے یا پھر دونوں کام بیک وقت کیے جا سکتے ہیں۔ کیٹیگری ٹو کے تحت گھریلو، زرعی، کمرشل اور صنعتی صارفین کو قرضہ لینے کی اجازت ہے جس سے وہ ایک میگا واٹ تک بجلی بنانے کے متعلقہ منصوبے/ طریقے نصب کر سکتے ہیں تاکہ اپنے استعمال کے لیے بجلی پیدا کریں یا گرڈ/ ڈسٹری بیوشن کمپنی کو نیٹ میٹرنگ کے تحت فروخت کر دیں۔  کیٹیگری تھری کے تحت فروخت کنندگان/رسدکنندگان/توانائی فروخت کرنے والی کمپنیوں کو5میگاواٹ تک ہوا اور شمسی نظام/سالوشن کی تنصیب کے لیے فنانسنگ کی اجازت دی گئی ہے۔ اسکیم کے آغاز سے قابل تجدید توانائی کے ذرائع سے1,082میگاواٹ توانائی کی رسد کے اضافے کی صلاحیت کے حامل 717منصوبوں کے لیے فنانسنگ مہیا کی جا چکی ہے۔30جون2021 تک اسکیم کے تحت مجموعی واجب الادا فنانسنگ کی مالیت53ارب روپے ہے۔ کیٹیگری ون اور ٹو کا خاصا استعمال دیکھنے میں آیا ہے تاہم کیٹیگری تھری کے تحت توانائی کے رسدکنندگان کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔لہٰذا، قابل تجدید توانائی سولوشن سپلائرز، متبادل توانائی ترقی بورڈ(اے ای ڈی بی)، نیپرا اور بینکوں سمیت فریقوں سے موصول ہونے والی رائے کی روشنی میں آر ای آئی ایز (RE-IEs) کے لیے اے ای ڈی بی کی توثیق کی شرط کو ختم کر دیا گیا ہے جو خود تنصیبات نہیں لگاتے بلکہ قابل تجدید توانائی منصوبوں/سولوشن کی تنصیب کے لیے نصب کنندگان/فروخت کاروں کی خدمات حاصل کرتے ہیں۔ تاہم ان آر ای آئی ایز کے فروخت کاروں/رسدکنندگان/انجینئرنگ کی  خریداری اور تعمیرات کے ٹھیکیداروں کے لیے اے ای ڈی بی توثیق کے ضوابط کے تحت توثیق کرانا اب بھی ضروری ہو گا۔ توقع ہے کہ کیٹیگری تھری پر اس نظرثانی سے صاف توانائی کی پیداوار میں مزید سہولت ملے گی۔