اسلام آباد (ویب ڈیسک)

وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت آئی تو کرنٹ اکانٹ خسارہ، افغانستان کی صورتحال اور عالمی مہنگائی کے چیلنجز کا سامنا تھا، ڈالرز نہ ہونے کی وجہ سے آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑا۔یہ بات انہوں نے مقامی ہوٹل میں منعقدہ انڈسٹریل اینڈ ایکسپورٹ ورکشاپ سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ ورکشاپ میں مشیر برائے ماحولیاتی تبدیلی امین اسلم، چیئرمین سرمایہ کاری بورڈ اور ڈپٹی چیئرمین پلاننگ کمیشن نے بھی خطاب کیا۔وزیر خزانہ نے کہا کہ ہمیں ڈالر کی قلت کا سامنا ہمیں ڈالرز خریدنے پڑتے ہیں اسی لیے ڈالرز نہ ہونے کے سبب ہمیں آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑا، پاکستان کا مالی گیپ 40 ارب ڈالر کا ہے یہ بھی شکر ہے کہ 30 ارب ڈالر کی ترسیلات زر آتی ہیں۔انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم کی قیادت میں حکومت نے اپنا آغاز معیشت کو بحال کرنے کی کوششوں سے کیا، بڑی محنت سے معیشت کی سمت درست کی گئی، اس سال معاشی نمو کی شرح ساڑھے چار سے پانچ فیصد کے درمیان رہنے کی توقع ہے، ہم سیونگ ریٹ کو بہتر کرنے پر توجہ دے رہے ہیں جس کے لیے ہمیں ٹیکنالوجی کے استعمال سے حکومتی آمدنی بڑھانی ہے۔انہوں نے کہا کہ پائیدار ترقی کے لیے ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی موجودہ دس فیصد شرح کو بڑھا کر20 فیصد پر لیجانا ہے، ہمیں آئی ٹی اور سیاحت کے شعبوں پر سرمایہ کاری کرنی ہے، ہمیں اپنی ایکسپورٹ حکمت عملی کو بھی بہتر بنانا ہے، ہمیں اپنی صنعتی اور زرعی پیدوار بڑھانے کی بھی ضرورت ہے، ہمیں غذائی تحفظ یقینی بنانے کے لیے فصلوں کی پیداوار بڑھانی ہے۔انہوں نے کہا کہ حکومت نے سرمایہ کاری کے لیے سازگار ماحول کی فراہمی کے ضمن میں متعدد اقدامات کیے گئے ہیں ،اقتصادی ترقی کے ثمرات نچلے طبقے تک پہنچانے کیلئے اقدامات کررہے ہیں، کامیاب پاکستان پروگرام ، کامیاب جوان، احساس ، ہیلتھ کارڈ جیسے اقدامات کیے ہیں عام آدمی کے سماجی تحفظ پر خصوصی توجہ دی جارہی ہے،ہمیں اقتصادی ترقی کے تسلسل کو برقرار رکھنا ہوگا۔