واشنگٹن ڈھاکہ (ویب نیوز)
آئی ایم ایف بنگلہ دیش کی مدد کو تیار،پاکستان اور سری لنکا کے بعد بنگلہ دیش جنوبی ایشیائی کا تیسرا ملک بن گیا ہے، جس نے معیشت کو سہارا دینے کی خاطر رواں برس بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے رابطہ کیا ہے۔جرمن ٹی وی رپورٹ کے مطابق ایسی اطلاعات ہیں کہ ڈھاکہ حکومت مالی مشکلات سے نمٹنے کی خاطر ورلڈ بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک سے بھی مدد چاہتی ہے۔ حالیہ ماہ کے دوران بنگلہ دیش کی معیشت سنگین مسائل کا شکار نظر آئی۔ مہنگائی، افراط زر اور لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے عوام سراپا احتجاج بن چلے ہیں۔اس صورتحال پر قابو پانے کی خاطر وزیر اعظم شیخ حسینہ کی حکومت نے مبینہ طور پر ورلڈ بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک سے ایک ایک بلین ڈالر کا قرض لینے کی درخواست جمع کرا دی ہے۔یہ پیش رفت ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے، جب گزشتہ ہفتے ہی بنگلہ دیش کے میڈیا میں یہ خبریں گردش کر رہی تھیں کہ ڈھاکہ حکومت نے عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے ساڑھے چار بلین ڈالر کا پیکج لینے کی کوشش کی۔آئی ایم ایف کے مطابق بنگلہ دیش اس مالیاتی ادارے کے اس خصوصی فنڈ سے استفادہ کرنا چاہتا ہے، جس کا مقصد ایسی ریاستوں کو مالی مدد فراہم کرنا ہے، جو کلائمٹ چینج اور ملکی معیشت میں پائیداری کی خواہاں ہیں۔واشنگٹن میں واقع آئی ایم ایف کے صدر دفتر کی طرف سے تصدیق کر دی گئی ہے کہ یہ مالیاتی ادارہ بنگلہ دیش کی مالیاتی مشکلات دور کرنے کے لیے تیار ہے۔ ساتھ ہی کہا گیا کہ آئی ایم ایف بنگلہ دیش کو درپیش طویل المدتی چیلنجوں سے نمٹنے میں بھی مدد فراہم کرے گا۔اگرچہ بظاہر ڈھاکہ حکومت کی یہ مالی درخواست منظور ہو چکی ہے تاہم ابھی تک یہ واضح نہیں کہ موجودہ اقتصادی مشکلات سے نمٹنے کی خاطر اس جنوبی ایشائی ریاست کو کتنی مالیت کا پیکج مل سکے گا۔آئی ایم ایف سے وابستہ سابق ماہر اقتصادیات احسن منصور نے جرمن ٹی وی ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں کہا، ”بنگلہ دیش کو بیل آوٹ پیکج نہیں دیا جا رہا ہے بلکہ حکومت کی طرف سے اٹھایا جانے والا ایک احتیاطی قدم ہے۔ڈھاکہ میں واقع پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ سے وابستہ منصور کے مطابق اگر بنگلہ دیش کی معیشت میں بہتری نہیں ہوتی تو حکومت ٹیکس ریونیوز کو درآمدات محفوظ بنانے پر خرچ کر سکتی ہے، جس سے حکومتی اخراجات کے لیے مختص رقوم میں کمی ہو سکتی ہے۔منصور کے مطابق موجودہ حالات میں حکومتی اخراجات دوگنا ہو چکے ہیں اور اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو مستقبل میں ڈھاکہ حکومت کو درپیش مسائل دوچند ہو جائیں گے۔ایک سو ساٹھ ملین آبادی والا ملک بنگلہ دیش دنیا کے ان ممالک میں شمار کیا جاتا تھا، جن کی معیشت میں تیزی سے ترقی ہو رہی تھی۔ تاہم یوکرین جنگ کی وجہ سے عالمی مالیاتی مسائل نے اس ملک کو بھی شدید متاثر کیا ہے۔مہنگائی، افراط زر کی شرح میں اضافہ اور اقتصادی غیر یقینی کے ساتھ ساتھ اس وقت بنگلہ دیش کو توانائی کے بحران کا سامنا بھی ہے۔ ڈیزل اور گیس کی کمی کے باعث ملک میں لوڈ شیڈنگ ایک مسئلہ بن چکی ہے۔ کئی علاقوں میں تیرہ تیرہ گھنٹے بجلی نہیں ہوتی۔حکام کے مطابق ڈیزل سے چلنے والے پاور پلانٹس وقتی طور پر بند ہیں جبکہ گیس سے چلنے والے پلانٹس پر دبا بڑھ چکا ہے۔ حکومت نے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ بچت کریں تاکہ حکومت اس بحران سے نکلنے میں کامیاب ہو سکے۔حکومت نے ملک میں قائم ہزاروں مساجد سے بھی اپیل کی ہے کہ وہ ایئر کنڈیشنز کا استعمال کم کر دیں تاکہ عوام کو بجلی کی فراہمی میں مشکلات نہ آئیں۔اس لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے ملک کی صنعت بھی بری طرح متاثر ہو رہی ہے، جس کی وجہ سے عوامی مظاہرے بھی شروع ہو چکے ہیں۔عالمی مالیاتی فنڈ کی طرف سے ملنے والے قرضوں کے عوض حکومتوں سے عمومی طور پر سخت مطالبات کیے جاتے ہیں۔ منصورکے مطابق حکومت زیادہ سخت مطالبے منظور نہیں کر سکتی کیونکہ اس کا ایک سیاسی نقصان بھی ہو گا۔منصور نے کہا کہ بالخصوص فیول پر دی جانے والی مراعات کو ختم کرنے سے حکومت غیر مقبول ہو جائے گی۔ اس ماہر اقتصادیات نے البتہ کہا کہ آئی ایم ایف سے مطالبات منوانا کوئی آسان کام بھی نہیں ہے۔دریں اثنا ملکی وزیر خزانہ مصفطی کمال نے واضح کیا ہے کہ ڈھاکہ حکومت آئی ایم ایف سے اسی وقت قرضہ لے گی، جب شرائط بہتر ہوں گی۔ انہوں نے اصرار کیا کہ ملک کی مائیکرو اکنامک صورتحال اب بھی کنٹرول میں ہے، اس لیے آئی ایم ایف سخت شرائط نہیں رکھے گا