سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے سرکاری ملازمین سے متعلق پشاورت ہائیکورٹ کا فیصلہ برقرار رکھا ہے

اسلام آباد (ویب نیوز)

سپریم کورٹ آف پاکستان نے قراردیا ہے کہ کسی بھی ملازمت کے لئے مستقل رہائش کا پتہ ڈومیسائل پر درج ہی تصور کیا جائے گا۔ عدالت نے قراردیا ہے کہ شناختی کارڈ پر درج مستقل یا عارضی پتہ مختلف ہو سکتا ہے لیکن مستقل حتمی پتہ ڈومیسائل سرٹیفیکیٹ پر ہی تصور کیا جائے گا۔ عدالت نے قراردیا ہے کہ اگر اس اصول کو مان لیا جائے کہ شناخی کارڈ پر درج پتہ ہی مستقل تصور کیا جائے گا تو پھر کوئی بھی شخص سرکاری ملازمت اس لئے حاصل نہیں کرسکے گا کہ کبھی اس کے شناختی کارڈ پر پتہ اور ہو گا اور کبھی ڈومیسائل سرٹیفیکیٹ پر پتہ اور ہو گا اور ہر دفعہ اسے نئے ڈومیسائل سرٹیفکیٹ پر اپلائی کرنا پڑے گا اور وہ شخص نہ اِدھر کا رہے گا نہ اُدھر کا رہے بلکہ بدقسمتی سے ایک رولنگ سٹون بن کررہ جائے گا۔ عدالت نے قراردیا ہے کہ اگر کوئی شخص ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل بھی ہو جاتا ہے اور وہ وہاں جاکر اپنا نیا ڈومیسائل سرٹیفیکیٹ نہیں بناتا تواس کا مطلب ہے کہ اس شخص کا ارادہ ہے کہ وہ کسی بھی وقت اپنی مستقل رہائش گاہ پر واپس آسکتا ہے۔ جبکہ عدالت نے کیس کے فیصلہ میں بلیکس لاء ڈکشنری کا بھی حوالہ دیا ہے اور ڈکشنری میںدی گئی ڈومیسائل کی تعریف فیصلے میں نقل کی ہے۔ مشہور زمانہ پانامہ کیس میں سابق وزیر اعظم میاں محمد نوازشریف کو ناہل قراردینے کے لئے اثاثے کی تعریف بلیکس لاء ڈکشنری سے لی گئی تھی۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کے جسٹس سردار طارق مسعود کی سربراہی میں جسٹس امین الدین خان اور جسٹس محمد علی مظہر پرمشتمل تین رکنی بینچ نے ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر(زنانہ ) چارسدہ اور دیگر، سیکرٹری ایس ایس ڈی ، فاٹا سیکرٹریٹ ،فاٹا،(سیکرٹری ایلیمنٹری اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن ، خیبرپختونخوا، پشاور)ودیگر، حکومت خیبر پختونخوا بذریعہ سیکرٹری ایلیمنٹری اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن ، پشاور اوردیگر اور ڈائریکٹر ایلیمنٹری اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن ، پشاور اوردیگر کی جانب سے سونیا بیگم،شکیلہ چمن، سائرہ امین، سید امجد رائوف شاہ اور ریاض احمد کے خلاف پشاور ہائی کورٹ کے 2017سے2019کے دوران مختلف کیسز کے فیصلوں کے خلاف اپیلیں دائر کی تھیں۔ پشاور ہائی کورٹ نے2016میں پرائمری اسکول ٹیچرز کی پوسٹوں پر خیبرپختونخوا کے مختلف علاقوںمیں بھرتیوں کے دوران ان امیدواروں کو میرٹ پرآنے کے باوجود اس بناء پر ملازمت کے لئے نااہل قراردیا کہ ان کے شناختی کارڈ پر پتہ کچھ اور درج تھا اور ان کے ڈومیسائل سرٹیفکیٹ پر پتہ کچھ اور درج تھا۔ پانچوں امیدواروں نے ملازمت کے لئے نااہل قراردینے کے معاملہ کو پشاور ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔ پشاور ہائی کورٹ نے تمام ریکارڈ دیکھنے کے بعد متعلقہ حکام کو ان کے معاملہ پر دوبارہ غور کرنے کی ہدایت کی تھی۔ ان فیصلوں کے خلاف خیبرپختونخواحکومت کی جانب سے سپریم کورٹ آف پاکستان میںاپیلیں دائر کی گئی تھیں۔ درخواست گزاروں کی جانب سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل خیبرپختونخوا میاں شفقت جان اور سب ڈویژنل ایجوکیشن آفیسر باجوڑ پیش ہوئے ۔تاہم درخواست گزاروں کی جانب سے کوئی پیش نہ ہوا۔ عدالت نے 29ستمبر 2022کو سماعت کے بعد فیصلہ محفوظ کیا تھا۔ جسٹس محمد علی مظہر کی جانب سے 13صفحات پرمشتمل تفصیلی فیصلہ جاری کیا گیا ہے۔دوران سماعت ایڈیشنل اٹارنی جنرل خیبرپختونخوا نے موقف اختیار کیا کہ پیش کئے گئے مواد کے اعتبار سے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے غیر قانونی ہیں اور خیبرپختونخوا (اپوائنٹمنٹ، ڈیپوٹیشن، پوسٹنگ، ٹرانسفر اینڈ ٹرانسفر آف ٹیچرز، لیکچرز، انسٹرکٹر اینڈ ڈاکٹرز) ریگولیٹری ایکٹ 2011کے سیکشن تین کے خلاف ہے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے مزید مئوقف اختیار کیا کہ پشاور ہائی کورٹ قانون کی مناست تشریح کرنے اور دیئے گئے اشتہاروں کو بھی نظر انداز کیا۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل کا مزید کہنا تھا کہ پشاور ہائی کورٹ اس بات کاجائزہ لینے میں ناکام رہی کہ آیا درخواست گزار ان یونین کونسلوں کے مستقل رہائشی ہیں جہاں پر انہوں نے اپلائی کیا تھا۔ جسٹس محمد علی مظہر نے اپنے تحریری فیصلے میں لکھا ہے کہ مدعا علیحان نے مئوقف اختیار کیا ہے کہ ان کے پاس متعلقہ یونین کونسلوں کا ڈومیسائل ہے اور انہوں نے شناختی کارڈ اور ڈومیسائل درج پتہ کے حوالہ سے مضبوط توجیہ بھی بیان کی ہے۔ عدالت نے قراردیا ہے کہ ان امیدواروں نے اشتہار کے مطابق پرائمری ٹیچرز کی ایڈہاک، کنٹریکٹ یا مستقل پوسٹوں کے لئے اپلائی کیا اور ان کو ایپٹیٹیوڈ ٹیسٹ میں شرکت کی اجازت دی گئی اور انہوں نے ٹیسٹ پاس کیا اور ان میں سے بعض نے ٹاپ پوزیشنیں حاصل کیں اور ان سب کو مجموعی طورپر اہل قراردیا گیا تاہم انہیں میرٹ لسٹ سے ڈراپ کردیا گیا۔ عدالت نے قراردیا کہ اگر محکمے کو امیدواروں کے ڈومیسائل اور شناختی کارڈ پر درج پتوں پر کسی قسم کا شک تھا تواس پر درخواستوں کی اسکروٹنی یا امیدواروں کو شارٹ لسٹ کرنے کے وقت کیوں غور نہیں کیا گیا ، جو کہ مناسب مرحلہ تھا اور اگر کسی امیدوار پر اعتراض ہوتا تو اس پر اعتراض کیا جاتا اور امیدوار سے بھرتی کے عمل میں شامل ہونے سے پہلے اعتراض دور کرنے کا کہا جاتا۔ عدالت نے قراردیا ہے کہ محکمے کا طرز عمل بھی شک وشبہ سے خالی نہیں۔ عدالت نے قراردیا ہے کہ ایپٹیٹیوڈ ٹیسٹ میں شامل ہونے سے پہلے دستاویزات کی جانچ پڑتال کے حوالہ سے کچھ نہیں کہا گیا۔ جمع کروائی گئی دستاویزات کی بنیاد پر ٹیسٹ میں شامل ہونے اور میرٹ پر آنے کے باوجود ان امیدواروں کوآخری وقت پر ملازمت کا موقع فراہم کرنے سے انکار کردیا گیا جو کہ حکام بالا سے برابری کے اصول کی توقع کے بھی خلاف ہے۔ اس حوالہ سے جسٹس محمد علی مظہر نے سپریم کورٹ کے عظمیٰ منظور اوردیگر بنام وائس چانسلر خوشحال خان یونیورسٹی ، کرک اور دیگر کے 2022کے کیس کا حوالہ بھی دیا ہے۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں قراردیا ہے کہ ہمارے نوٹس میں یہ بات بھی آئی ہے اضافہ شدہ اشتہار روزنامہ مشرق اور روزنامہ آج میں22جنوری2016اور24جنوری2016کو چھاپہ گیا تھا جس میں کہا گیا تھاکہ خواتین امیدواراپنے شوہر کے ڈومیسائل سرٹیفیکیٹ کی بنیاد پر اپلائی کرسکتی ہیں۔ عدالت نے قراردیا ہے کہ ہمیں پشاور ہائی کورٹ کی جانب سے جاری کردہ فیصلوں میں کوئی بے قاعدگی نظر نہیں آئی۔ عدالت نے سول پیٹیشنزناقابل سماعت قراردیتے ہوئے مسترد کردیں۔