معزز ہائی کورٹ کو ایسا حکم جاری نہیں کرنا چاہیئے تھا جو نہ صرف ازخود کارروائی کے دائرہ اختیار میں آتا ہے بلکہ ایگزیکٹو کے اختیارات میں مداخلت کے مترادف ہے
پشاور ہائیکورٹ کاحکم کالعدم ، پولٹری مصنوعات اور لائیو اسٹاک کی برآمد پر پابندی کے خلاف ایم/ایس صادق پولٹری(پرائیویٹ)لمیٹڈ کی اپیل سماعت کیلئے منظور
اسلام آباد (ویب نیوز)
سپریم کورٹ آف پاکستان نے قراردیا ہے کہ درآمدات اور برآمدات کی اجازت دینا وفاقی حکومت کا دائرہ اختیار ہے ۔عدالت نے قراردیا ہے کہ آرٹیکل 199کے تحت پشاور ہائی کورٹ کو کوئی ازخودنوٹس لے کر کسی چیز کی درآمد اور برآمد کے حوالہ سے حکم جاری کرنے یا اشیاء کی قیمتیں مقرر کرنے کا کوئی اختیار حاصل نہیں۔معزز ہائی کورٹ کوآئین کے آرٹیکل 199 کے تحت اپنے اختیارات سے تجاوز نہیں کرنا چاہیئے تھا اور ایسا حکم جاری نہیں کرنا چاہیئے تھا جو نہ صرف ازخود کاروائی کے دائرہ اختیار میں آتا ہے بلکہ ایگزیکٹو کے اختیارات میں مداخلت کے مترادف ہے۔ اشیاء کی قیمتیں مقررکرنا ایگزیکٹو کااختیار ہے۔ ایسے معاملہ کے حوالہ سے احکامات جاری کرنا جو ہائی کورٹ کے سامنے بھی نہیں تھا ، یہ عدالتی اختیارات سے تجاوز ہے جس کی کسی صورت اجازت نہیں دی جاسکتی۔ ہائی کورٹ صرف اسی مقدمہ میں مناسب اورقانون کے مطابق احکامات جاری کرسکتی ہے جو اس کے سامنے ہو۔عدالت نے ایم/ایس صادق پولٹری(پرائیویٹ)لمیٹڈ کی جانب سے پولٹری مصنوعات اور لائیو اسٹاک کی ایکسپورٹ کے حوالہ سے پابندی لگائے جانے کے خلاف دائر اپیل سماعت کے لئے منظور کرتے ہوئے پشاور ہائی کورٹ کی جانب سے 16ستمبر2021کو دیا گیاحکم کالعدم قراردے دیا۔ جسٹس اعجازالاحسن کی سربراہی میں جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی پر مشتمل دورکنی بینچ نے 27ستمبر2022کو ایم/ایس صادق پولٹری(پرائیویٹ)لمیٹڈ کی جانب سے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی۔ درخواست میں خیبر پختونخوا حکومت کو بذریعہ چیف سیکرٹری فریق بنایا گیا تھاْ۔درخواست سپریم کورٹ کے سینئر وکلاء سردار محمد لطیف خان کھوسہ اور سینیٹر کامران مرتضیٰ ایڈووکیٹ کے توسط سے دائر کی گئی تھی۔ جبکہ سید رفاقت حسین شاہ بطورایڈووکیٹ آن ریکارڈ عدالت میں پیش ہوئے جبکہ خیبرپختونخوا حکومت کی جانب سے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل میاں شفقت جان اور ضلعی ڈائریکٹر لائیواسٹاک پشاور ڈاکٹر کامران فرید پیش ہوئے۔سپریم کورٹ کی جانب سے کیس کا تحریری فیصلہ جاری کردیا گیاہے۔ آٹھ صفحات پر مشتمل فیصلہ جسٹس اعجازالاحسن نے تحریر کیا ہے۔فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پشاور ہائی کورٹ نے 16ستمبر2021کو ایک حکم پاس کیا جس سے متاثر ہونے والے پرائیویٹ مدعا علیحان نے عدالتی حکم سے متاثر ہو کر پشاور ہائی کورٹ کی جانب سے پولٹری اور ڈیری مصنوعات کی قیمتیں مقرر کرنے اوران کی کوالٹی چیک کرنے اور ملاوٹ والے دودھ اورد یگرناقابل استعمال اشیاء کی فروخت کو روکنے کے کمیٹی بنانے اور تواتر کے ساتھ مارکیٹ کا دورہ کرنے کی ہدایت کے خلاف عدالت عالیہ سے رجوع کیا۔درخواست گزاروں نے پشاور ہائی کورٹ سے استدعا کی کہ لائیو اسٹاک اور ڈیری مصنوعات کی قیمتیں موجودہ پرائسنگ پالیسی کے مطابق طے کی جائیں۔عدالت نے صوبائی حکومت سے مختلف رپورٹس منگوائیں اور ہدایت کی کہ لائیو اسٹاک، ڈیری اور پولٹری مصنوعات کی قیمتیں کم کرنے کے لئے پالیسی بنائی جائے۔ عدالت کی جانب سے یہ حکم بھی دیا گیا کہ ڈیر ی اور پولٹری مصنوعات کی ایکسپورٹس پر اس وقت تک پابندی لگائی جائے جب تک ان اشیاء کی قیمتیں کم نہیں ہوتیں۔ فیصلے میں قراردیا گیا ہے کہ درخواست گزارپولٹری کمپنی پاکستان اور خاص طور خیبر پختونخوا میں موجود ہونے کے پشاور ہائی کورٹکی ہدایات سے متاثر ہوئی ہے۔ درخواست گزار نے پشاور ہائی کورٹ سے رجوع کیا اور استدعا کہ ایکپورٹس پر مکمل پابندی کے حکم سے کمپنی کے کاروبار کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے اور پشاور ہائی کورٹ کی جانب سے قیمتیں مقرر کرنے کے حوالہ سے مداخلت کرنا غیر ضروری اقدام ہے۔ پشاور ہائی کورٹ نے 16ستمبر2021کو اپنا پہلا حکم واپس لے لیا تاہم ایسا کرتے ہوئے عدالت نے ایک نئی کمیٹی بنانے اور لائیو اسٹاک اور پولٹری مصنوعات کی قیمتیں طے کرنے کی ہدایت کی اور کمیٹی نے فارمولے کے تحت مرغی کی کھال، پیٹ کے اجزائ،پَروں، لیگز اورونگز کی قیمتیں کم کردیں۔ پشاور ہائی کورٹ کے حکم کے خلاف متاثرہ درخواست گزار نے سپریم کورٹ آف پاکستان سے رجوع کیا۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کے سینئر وکلاء نے درخواست گزار کی جانب سے دلائل دیتے ہوئے کہا ہے کہ ہائی کورٹ کو ازخود نوٹس لینے کے اختیارات حاصل نہیں لہذا ازخودنوٹس کے تحت اختیارات استعمال کرنا قانونی طور پر نامناسب ہے۔ وکلاء کی جانب سے کہا گیا کہ معزز عدالت عالیہ نے اپنے دائرہ اختیار سے تجاوز کیا اور ایسا ریلیف دیا جس کی استدعا بھی رٹ پیٹیشن میں نہیں کی گئی تھی۔ وکلاء کی جانب سے دلائل میں کہا گیا کہ عدالت عالیہ کو اپنی جانب سے کمیٹی کو فارمولا دے کراور قیمتیں مقرر کر کے پالیسی معاملات میں مداخلت نہیں کرنی چاہیئے تھی ۔ وکلاء کا کہنا تھا کہ ایسے معاملات ایگزیکٹو کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں اوران میں عدالتی مداخلت اختیارات کی تقسیم کی آئینی اسکیم کے خلاف ہے۔ دلائل میں وکلاء کی جانب سے یہ بھی کہا گیا کہ درآمدات اور برآمدات کی اجازت دینا وفاق کا سبجیکٹ ہے اور ہائی کورٹ اپنے اختیارات سے نکل کر ایسے معاملہ کے حوالہ سے حکم دیا ہے جو اس کے دائرہ اختیار میں نہیں۔ جسٹس اعجازالاحسن نے فیصلے میں کہا ہے کہ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے صوبائی حکومت کی جانب سے پیش ہو کر پشاور ہائی کورٹ کے حکم کے حق میں دلائل پیش کئے۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ ہم نے فریقین کے دلائل سنے ہیں اور ریکارڈ کا جائزہ لیاہے ۔ بنیادی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا ہائی کورٹ ازخود نوٹس کے اختیارات استعمال کرسکتی ہے اور ایسے پالیسی معاملات کے حوالہ سے احکامات جاری کرسکتی ہے جو ایگزیکٹو کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں۔جسٹس اعجازالاحسن نے اپنے فیصلے میں قراردیا ہے کہ یہ طے شدہ قانون ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 199کے تحت ہائی کورٹ کو ازخود نوٹس کے اختیارات حاصل نہیں۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ آرٹیکل 184-3کے تحت ازخود نوٹس کے تحت کاروائی کا اختیار سپریم کورٹ جوحاصل ہے۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پرائیویٹ مدعا علیحان کی استدعا مصنوعات کی قیمتوں تک محدود تھی تاہم ہائی کورٹ نے ازخودکاروائی کے تحت بہت سے احکامات جاری کئے جن میں 25فروری2021اوریکم جوئی2021کے احکامات شامل ہیں جن کے تحت ڈیری اور پولٹری مصنوعات کی ایکسپورٹس پر پابندی عائد کردی گئی۔ عدالتی حکم میں کہا گیا ہے کہ درآمدات اور برآمدات پر پابندی لگانا عدالتوں کا دائرہ اختیار نہیں بلکہ یہ ایگزیکٹو کے دائرہ اختیار میں آتی ہے۔ جسٹس اعجازالاحسن نے اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ معزز ہائی کورٹ کوآئین کے آرٹیکل 199 کے تحت اپنے اختیارات سے تجاوز نہیں کرنا چاہیئے تھا اور ایسا حکم جاری نہیں کرنا چاہیئے تھا جو نہ صرف ازخود کاروائی کے دائرہ اختیار میں آتا ہے بلکہ ایگزیکٹو کے اختیارات میں مداخلت کے مترادف ہے۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ہائی کورٹ نے کوئی ایسا قانون یا نظیر نہیں بتائی جس کے تحت اس نے ازخود کاروائی کا اختیار استعمال کیا۔ عدالت نے قراردیا ہے کہ ہائی کورٹ کو قیمتوں کے تعین کا اختیار بھی حاصل نہیں تھا۔ فیصلے میں کہا گی ہے اگر ایکشن لینا ضروری بھی تھا تو پشاور ہائی کورٹ صرف یہ کرسکتی تھی کہ وہ حکومت کو ہدایت کرتی کہ قانون کے مطابق کیا کرنا چاہیئے،جو کہ متعلقہ حکام نہیں کررہے تھے۔ فیصلے میں قراردیا گیا ہے کہ ہائی کورٹ آرٹیکل 199کے تحت قیمتوںکے تعین کا فارمولا تیار نہیں کرسکتی تھی، ایسا کرنے کی قانون میں اجازت نہیں او ر نہ ہی یہ عدالتوں کے دائرہ اختیار میں آتا ہے بلکہ یہ آئین میں درج اختیارات کے اصول کے بھی خلاف ہے۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ایسے معاملہ کے حوالہ سے احکامات جاری کرنا جو ہائی کورٹ کے سامنے بھی نہیں تھا ، یہ عدالتی اختیارات سے تجاوز ہے جس کی کسی صورت اجازت نہیں دی جاسکتی۔ عدالت نے اپنے فیصلہ میں قراردیا ہے کہ ہائی کورٹ صرف اسی مقدمہ میں مناسب اورقانون کے مطابق احکامات جاری کرسکتی ہے جو اس کے سامنے ہو۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ہائی کورٹ کو نہ ہی قیمتوں کے تعین کا فارمولا دینے کا اختیار تھا اور نہ ہی اس پر عملدرآمد کے لئے کمیٹی بنانے کااختیا ر تھا۔ عدالت نے قراردیا ہے کہ یہ معاملات ایگزیکٹو سے تعلق رکھتے ہیں اورانہیں پالیسی میکرز پر چھوڑ دینا چاہیئے کہ وہ انہیں کس طرح ریگولیٹ کرتے ہیں۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ فیڈرل لیجیلیٹو لسٹ کاآئٹم نمبر 27واضح طور پر بتاتا ہے کہ درآمدات اور برآمدات وفاق کا سبجیکٹ ہے ۔ جبکہ پاکستان امپورٹس اینڈ ایکسپورٹس (کنٹرول)ایکٹ ،1950کا سیکشن تین واضح طور پر بتاتا ہے کہ درآمدات اور برآمدات پر پابندی لگانا یاانہیں محدود کرنا وفاقی حکومت کا اختیار ہے۔ صوبائی حکومت کو ایسا کرنے کی ہدایات دینے کی کوئی قانونی اورآئینی بنیاد نہیںیا منظوری شامل نہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے اپنے تحریری فیصلے میں قراردیا ہے کہ ہمارا خیال ہے کہ معزز ہائی کورٹ نے غلط طریقہ سے قانون کا اطلاق کیا ہے۔ ہائی کورٹ کے حکم میں دائرہ اختیار کی غلطیاں ہیںاوراس کی درستگی کے لئے مداخلت کی ضرورت ہے۔ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل ہمیں کائل کرنے میں ناکام رہے ہیں کہ ہم ہائی کورٹ کی جانب سے دیئے گئے نقطہ نظر کی حمایت کرسکیں۔ ہم نے متعدد بار ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل سے استفسار کیا کہ بتائیں کہ کس طرح یہ قانونی طور پر درست ہے تاہم وہ یہ بتانے میںناکام رہے۔ ہائی کورٹ کی جانب سے دیا گیا حکم برقرارنہیں رکھا جاسکتا۔ درج بالا وجوہات کی روشنی میں یہ پیٹیشن اپیل میں تبدیل کی جاتی ہے اور قابل سماعت قراردی جاتی ہے اور پشاورہائی کورٹ کی جانب سے 16ستمبر2021کو دیا گیا حکم کالعدم قراردیا جاتا ہے۔