پنجاب، کے پی الیکشن ازخود نوٹس،سپریم کورٹ کا 90 روز میں انتخابات کرانے کا حکم
سپریم کورٹ نے فیصلہ دو کے مقابلے میں تین کی اکثریت سے دیا
جسٹس منظور علی شاہ اور جسٹس جمال خان مندوخیال نے فیصلے سے اختلاف کیا
عدالت نے صدر مملکت کی جانب سے خیبر پختونخوا اسمبلی کے لئے انتخابات دینے کے اعلان کو کالعدم قراردے دیا
صدر مملکت الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ساتھ مشاورت کے ساتھ پنجاب میں انتخابات کی تاریخ کا اعلان کریں ،عدالت
خیبرپختونخوا اسمبلی گورنر کی جانب سے تحلیل کی گئی تھی تاہم وہ تاریخ نہ دے کر اپنی آئینی ذمہ داریاں پوری کرنے میں ناکام رہے ہیں
گورنر خیبر پختونخوا انتخابات کی تاریخ کا اعلان کریں، اگر گورنرنے تاریخ نہ دی تو پھر صدر مملکت خیبر پختونخوا اسمبلی کے انتخابات کی تاریخ کا بھی اعلان کریں گے
انتخابات کی تاریخ دینے کا اختیار گورنر اور صدر مملکت کو حاصل ہے،عدالت
90دن میں انتخابات کرانا لازم ہے، آئین کو مفلوج کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے، چیف جسٹس عمرعطا بندیال
الیکشن بروقت نہ ہوئے تو ملک میں استحکام نہیں آئے گا، حکومت کی نیک نیتی پر کوئی سوال نہیں اٹھا رہے
پہلی بار ایسی صورتحال ہے کہ کنٹینر کھڑے ہیں لیکن زرمبادلہ نہیں ہے، کوئی آئینی ادارہ انتخابات کی مدت نہیں بڑھا سکتا،ریمارکس
اسلام آباد( ویب نیوز)
سپریم کورٹ آف پاکستان نے پنجاب اور خیبرپختونخوا میں 90 روز میں انتخابات کروانے کا حکم دیدیا۔ سپریم کورٹ نے صوبہ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات سے متعلق ازخود نوٹس کیس میں محفوظ فیصلہ سنا دیا۔ سپریم کورٹ آف پاکستان نے فیصلے میں حکم دیتے ہوئے کہا ہے کہ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں 90 روز میں عام انتخابات کرائے جائیں،سپریم کورٹ نے فیصلہ دو کے مقابلے میں تین کی اکثریت سے دیا ہے، بینچ کی اکثریت نے درخواست گزاروں کو ریلیف دیا ہے۔ عدالت نے قراردیا ہے کہ خیبر پختونخوا اسمبلی گورنرکی جانب سے تحلیل کی گئی اس لئے وہ خیبرپختونخوا میں انتخابات کی تاریخ وہ دیں گے اور پنجاب اسمبلی گورنر کی جانب سے تحلیل نہیں کی گئی اس لئے صدر مملکت پنجاب اسمبلی کے انتخابات کی تاریخ دیں گے۔ عدالت نے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی جانب سے خیبر پختونخوا اسمبلی کے لئے انتخابات دینے کے اعلان کو کالعدم قراردے دیا گیا ہے۔ جسٹس منظور علی شاہ اور جسٹس جمال خان مندوخیال نے فیصلے سے اختلاف کیا،دونوں ججز نے درخواستوں کے قابل سماعت ہونے پر اعتراض کیا ہے۔ چیف جسٹس عمر عطابندیال نے فیصلہ پڑھ کر سنایا۔ عدالت نے قراردیا کہ ہے الیکشن ایکٹ 2017کے سیکشن 57کے تحت صدر مملکت ،گورنر پنجاب کی جانب سے اسمبلی تحلیل نہ پر انتخابات کی تاریخ دے سکتے ہیں۔عدالت نے صدر مملکت کو ہدایت کی ہے کہ وہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ساتھ مشاورت کے ساتھ پنجاب میں انتخابات کی تاریخ کا اعلان کریں۔ عدالت نے قراردیا ہے کہ خیبرپختونخوا اسمبلی گورنر حاجی غلام علی کی جانب سے تحلیل کی گئی تھی تاہم وہ تاریخ نہ دے کر اپنی آئینی ذمہ داریاں پوری کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ عدالت نے گورنر خیبر پختونخوا کو ہدایت کی ہے کہ وہ انتخابات کی تاریخ کا اعلان کریں۔ اگر گورنر خیبر پختونخوا نے انتخابات کی تاریخ نہ دی تو پھر صدر مملکت خیبر پختونخوا اسمبلی کے انتخابات کی تاریخ کا بھی اعلان کریں گے۔ عدالت نے قرردیا ہے کہ انتخابات کی تاریخ دینے کا اختیار گورنر اور صدر مملکت کو حاصل ہے۔ فیصلے میں یہ بھی کہا گیا کہ پارلیمانی جمہوریت آئین کا Silent Feature ہے۔سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ جنرل انتخابات کا طریقہ کار مختلف ہوتا ہے، آئین میں انتخابات کے لیے 60 اور 90 دن کا وقت دیا گیا ہے، اسمبلی کی تحلیل کے بعد 90 روز میں انتخابات ہونا لازم ہیں، پنجاب اسمبلی گورنرکے دستخط نہ ہونے پر 48 گھنٹے میں خود تحلیل ہوئی جبکہ کے پی اسمبلی گورنر کی منظوری پر تحلیل ہوئی۔ عدالت نے قراردیا ہے کہ عام انتخابات کا طریقہ کار مختلف ہوتا ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ معاملہ پر تفصیلی غور کیا گیا۔چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے کیس میں اہم ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ 90دن میں انتخابات کرانا لازم ہے، آئین کو مفلوج کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے، الیکشن بروقت نہ ہوئے تو ملک میں استحکام نہیں آئے گا۔ان کا کہنا تھا کہ حکومت کی نیک نیتی پر کوئی سوال نہیں اٹھا رہے، پہلی بار ایسی صورتحال ہے کہ کنٹینر کھڑے ہیں لیکن زرمبادلہ نہیں ہے، کوئی آئینی ادارہ انتخابات کی مدت نہیں بڑھا سکتا۔