بھکاری نہیں ، آئی ایم ایف کے رکن ہیں ،ہمارے ساتھ ممبر جیسا سلوک کیا جائے،اسحاق ڈار

 اگر آئی ایم ایف نہیں بھی آتا توآئندہ برس کے لئے درکار 22سے25ارب ڈالرز کا بندوبست ہو جائے گا

ہم نے پابندیاں بھی گزاری ہوئی ہیں ، پلان بی پر بھی کام ہوا ہے، ایسی کوئی بات نہیں، پاکستان کو ڈیفالٹ نہیں ہونے دیں گے

ہم حکومت ختم ہونے سے قبل کچھ نئی چیزیں کر کے جائینگے ،الیکشن کے نقطہ نظر سے نہیں بلکہ عوام کی بہتری کیلئے جو کچھ کرسکتے ہیں ہمیں کرنا چاہیے

ہم نے ٹیکس فری بجٹ کا اعلان کیا ہے، کوشش کی ہے کہ تما م شعبوں کو سہولت فراہم کی جائے اور ٹیکس نہ لگائے جائیں،وفاقی وزیر خزانہ کا انٹرویو

اسلام آباد( ویب نیوز)

وفاقی وزیر برائے خزانہ ومحصولات سینیٹر محمد اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ ہم بھکاری نہیں بلکہ آئی ایم ایف کے ممبر ہیں اور ہمارے ساتھ ممبر جیسا سلوک کیا جائے، اگر بین الاقوامی مالیاتی فنڈ( آئی ایم ایف )نہیں بھی آتا توآئندہ برس کے لئے درکار 22سے25ارب ڈالرز کا بندوبست ہو جائے گا، ہم نے پابندیاں بھی گزاری ہوئی ہیں ، پلان بی پر بھی کام ہوا ہے، ایسی کوئی بات نہیں۔ انشاء اللہ ہم پاکستان کو ڈیفالٹ نہیں ہونے دیں گے، مشکل ترین حالات میں نہیں ہونے دیا۔ ہم نے الیکشن کو دیکھ کر بالکل بجٹ نہیں بنایا بلکہ ہم نے گروتھ پر مبنی بجٹ بنایا ہے، ہم نے آئی ٹی کے شعبہ کو، زراعت کو، ایس ایم ایز اورگروتھ ڈرائیورز ہو ہم نے فوکس کیا ہے۔ اگر ہم نے اپنے آپ کومالیاتی ڈسپلن میں رکھا ہوتا توآج ہم اس مصیبت میں نہ ہوتے، اگر کچھ لوگوں نے پانچ سال پہلے میری بات سنی ہوتی توآج ہم اس بھنور میں نہ ہوتے، اگر ہم وہ خر چ نہ کرتے جو میں کہتا تھا کہ ہم افورڈ نہیں کرسکتے تو آج ہم اس مصیبت میں نہ پھنسے ہوتے۔ ابھی اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو بڑی سمجھدار قیادت دی ہے اورسب کا عزم ہے کہ ہم اپنے وسائل کے اندر رہ کر چلیں گے۔ ان خیالات کااظہار سینیٹر محمد اسحا ق دار نے ایک نجی ٹی وی سے انٹرویو میں کیا۔ اسحاق ڈار نے کہا کہ جو قرض ریاست نے ادار کرنا ہے وہ گزشتہ چار سال میں 25ہزار ارب روپے سے 49400ارب روپے پر پہنچ گیا جبکہ کل قرض اورلائیبلیٹیز ملا کرگزشتہ چارسال میں 30ہزارارب روپے سے 60ہزارارب روپے پر چلا گیا ہے اوراس پر جلتی پر تیل ڈالنے کا کام روپے کی قدر میں کمی نے کیا اوراس کی وجہ سے مہنگائی کا طوفان آیا اور ہم کئی دفعہ بات کرچکے ہیں کہ یہ ایک شیطانی چکر ہے اوراس کو کنٹرول کر نے کے لئے پالیسی ریٹ میں اضافہ کیا گیا اوروہ بھی اس وقت 21فیصد پر ہے۔ حکومت آئندہ مالی سال کے لئے ڈیٹ سروسنگ پچ کررہی ہے۔ ہم نے میکرواکنامک ڈھانچے کو جو تباہ کرلیا ہے اس کو ہمیں ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے پاس تواب چند ماہ ہیں آئندہ جو بھی آئے اس کو سخت مالیاتی ڈسپلن کے ساتھ ہی ٹھیک کرسکتے ہیں،اس کی قیمت شاید کسی کو اداکرنی پڑے اور میں ماضی میں دومرتبہ یہ قیمت ادا کرچکا ہوں۔ 2017-18کے بجٹ کے وقت سالانہ سود کی ادائیگی پر 1800ارب سے کم رقم خرچ ہورہی تھی اور پالیسی ریٹ ساڑھے پانچ فیصد تھا آج وہ چار گناہو گیا ہے اور قرض دوگنا ہو گیا ہے۔ پاکستانی معیشت دنیا میں 24ویں نمبر سے 47ویں نمبر پر پہنچ گئی ۔آئی ایم ایف پروگرام پرفروری میں دستخط ہوجانے چاہئیں تھے، مجھے آئی ایم ایف کو ڈیل کرتے 25سال ہو گئے ہیں، یہ پروگرام غیر ضروری طور پر تاخیر کاشکارہو ا ہے، جو چیزیں کرنی تھیں وہ بھی ہم نے پوری کردیں اور جو درکار چیزیں ہیں وہ بھی پوری ہے، اگر نواں اوردسواں ریویواکٹھا کریں گے توشاید نویں قسط بھی نہ ملے۔ اسحاق ڈارکا کہنا تھا کہ ہم نے ٹیکس فری بجٹ کا اعلان کیا ہے اور کوشش کی ہے کہ تما م شعبوں کو سہولت فراہم کی جائے اور ٹیکس نہ لگائے جائیں ۔ جب میں نے چھورا تھا تواس وقت بیرونی قرض 70ارب ڈالرز تھا جو پانچ سال میں 100ارب ڈالرز پر پہنچ گیا اور اگر تمام لائیبیلیٹز شامل کر لیں تو130ارب ڈالرز بنتے ہیں۔ پاکستان جو ایک گیس پائپ لائن ہے جو دنیا کی بڑی گیس پائپ لائنوں میں شامل ہے اس کی ویلیو 50ارب ڈالر ہے، ریکوڈک  منصوبہ کی مالیت300ارب ڈالرز ہے جس میں سے 50فیصد پاکستان کی ملکیت ہے ، پورے پاکستان میں قدرتی معدنیا ت کے ذخائر کی مالیت چھ ہزار ارب ڈالر بتائی جاتی ہے تاہم میں تین ہزارارب ڈالرز کہتا ہوں، پاکستان کے بہت بڑے اثاثے ہیں۔ آئی ایم ایف کے ساتھ بجٹ کے اعدادوشمار شیئر کردیئے تھے اوران کے سوال بھی آگئے ہیں ، ہمارے پاس آئی ایم ایف کا کوئی ایشو پینڈنگ نہیں ہے جو مانگتے ہیں وہ ہم دیتے جارہے ہیں اورکوئی مزید بھی وضاحت درکارہو گی توہم ان کو دے دیں گے۔ انہوںنے کہا کہ بلوم برگ نے کہا ہے کہ ڈالر کے مقابلہ میں پاکستانی روپے کی قیمت 244روپے ہونی چاہیے۔ہم بھکاری نہیں بلکہ آئی ایم ایف کے ممبر ہیں اور ہمارے ساتھ ممبر جیسا سلوک کیا جائے، کسی ملک کو آپ ڈبل ڈیجٹ میں ادائیگی کرسکتے ہیں اورہمیں ایک ارب ڈالر نہیں دے رہے، ہمیں بلاواسطہ جو پریشانی ہوئی اور معاشی نقصانات ہوئے ، جو ہماری ساکھ، پرسیپشن اورہماری مارکیٹس اورکرنسی کو نقصان ہوا وہ اس آئی ایم ایف کے پورے پرگرام سے بہت زیادہ ہے۔ میں اور پاکستان یہ توقع کرتے ہیں کہ آئی ایم ایف نواں ریویوکرے گا کیونکہ ہم نے بہت زیادہ قیمت اداکی ہے اوراسے نہ کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ ہم حکومت ختم ہونے سے قبل کچھ نئی چیزیں کر کے جائیں گے۔ الیکشن کے نقطہ نظر سے نہیں بلکہ غریب عوام کی بہتری کے لئے ہم جو کچھ بھی کرسکتے ہیں ہمیں کرنا چاہیے۔ ہم نے ملک بھر میں ایک ہی مرتبہ اکٹھے انتخابات کروانے کے لئے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے لئے بجٹ میں 42ارب روپے کی رقم مختص کردی ہے اور یہ رقم یکم جولائی کے بعد دستیاب ہو گی اور الیکشن کب کروانے ہیں یہ فیصلہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے کرنا ہے۔ حکومت ختم ہونے کے کم ازکم 54دن کے بعد انتخابات ہوں گے اور اگر اسمبلی کی مدت پورے ہونے سے قبل اسمبلی توڑ دی جائے تو پھر الیکشن کمیشن کو اضافی 30دن مل جائیں گے اور90روزکے اندر، اندر انتخابات کرانا ہوںگے۔ ZS