بادی النظر میں ٹرائل کورٹ کے فیصلے میں غلطیاں ہیں،چیف جسٹس عمرعطابندیال
کوئی ممبر ریفرنس نہیں بھیج سکتا ، مالی گوشوارے جمع کرانے کے بعد 120 دن میں ہی کارروائی ہوسکتی ہے،وکیل لطیف کھوسہ
کیا ایک رکن اسمبلی کسی دوسرے کیخلاف شکایت درج کرا سکتا ہے؟،جسٹس مظاہر نقوی
میرے مطابق رکن اسمبلی شکایت درج نہیں کرا سکتا،وکیل لطیف کھوسہ
آپ کا کیس تو ہائی کورٹ کے فیصلے کیخلاف ہے شکایت کی قانونی حیثیت پر نہیں،جسٹس جمال مندوخیل
عدالت کو گھڑی کی سوئیاں واپس پہلے والی پوزیشن پر لانا ہوں گی،وکیل لطیف کھوسہ
ہر مرتبہ غلط بنیاد پر بنائی گئی عمارت نہیں گر سکتی، چیف جسٹس عمرعطابندیال
ایک ایسی عدالت نے سزا سنائی جس کا دائرہ اختیار ہی نہیں بنتا،وکیل لطیف کھوسہ
دائرہ اختیار کا معاملہ بھی ہائی کورٹ اپیل میں سن سکتی ہے،چیف جسٹس عمرعطابندیال
الیکشن کمیشن آف پاکستان اورالیکشن کمیشن کے وکیل کو نوٹسز جاری ، عدالتی سوالوں کا جواب دینے کے لئے طلب
عدالت نے توشہ خانہ کیس کی سماعت آج (جمعرات کو)دن دو بجے تک ملتوی کردی
اسلام آباد (ویب نیوز)
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین اورسابق وزیر اعظم کی جانب سے توشہ خانہ کیس ایڈیشنلڈسٹرکٹ اینڈسیشن جج ہمایوں دلاور کے حوالے کرنے کے اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم کے خلاف دائر درخواست پر سپریم کورٹ آف پاکستان میں سماعت کے دوران چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ بادی النظر میں ٹرائل کورٹ کے فیصلے میں غلطیاں ہیں لیکن ہم مداخلت نہیں کرتے ، آج (جمعرات)کے روز اسلام آباد ہائی کورٹ کیس سنے اور پھر دن دوبجے ہمارے پاس آئیں، ٹرائل کورٹ نے ملزم کے وکیل کی عدم موجودگی میں یکطرفہ کارروائی کرتے ہوئے ملزم کو تین سال قیدکی سادہ سزااورایک لاکھ روپے جرما نہ کیا۔قانون میں جائے بغیر ہم سمجھتے ہیں کہ ہائی کورٹ پہلی عدالت ہے جو معامات کو سنے اورفیصلہ کرے۔ درخواست گزار پانچ اگست سے جیل میں ہے، درخواست گزارکی سزامعطلی کے حوالے سے درخواست پر آج (جمعرات)کے روز اسلام آباد ہائی کورٹ میں سماعت ہے ہم عدالت کے احترام میں فیصلہ کاانتظار کریں گے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ درخواست گزار کی جانب سے اٹھائے گئے سنجیدہ نوعیت کے قانونی نکات ہماری نظرثانی کے متقاضی ہیں، ایک ہی دن میں تین عدالتوں میں کیا فیصلہ ہو گیا، ملزم کا نہیں سنا گیا اورملزم کو سزاہو گئی جبکہ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا ہے کہ نہ صرف انصاف ہونا چاہیے بلکہ انصاف ہوتا ہوانظر بھی آنا چاہیے ۔چیف جسٹس نے ملزم کے وکیل سردار لطیف خان کھوسہ کو ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ہمایوں دلاور اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کا کا بار،بار نام لینے سے روک دیا اور کہا کہ ججوں کا نام نہ لیں بلکہ عدالتی فیصلوں پر بات کریں، اعلیٰ اور ماتحت عدلیہ کے تمام ججوں کا تحفظ سپریم کورٹ کی ذمہ داری ہے۔ ْچیف جسٹس نے کہا کہ آج (جمعرات)کے روز سپریم کورٹ دن دو بجے دوبارہ کیس کی سماعت کرے گی۔ عدالت نے الیکشن کمیشن آف پاکستان اورالیکشن کمیشن کے وکیل محمد امجد پرویز کو نوٹسز جاری کرتے ہوئے عدالتی سوالوں کا جواب دینے کے لئے طلب کر لیا ۔ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی اور جسٹس جمال خان مندوخیل پر مشتمل سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔درخواست گزار کے وکیل سردار محمد لطیف خان کھوسہ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ چیئر مین پی ٹی آئی کی جانب اسلام آباد ہائی کورٹ کے مختلف احکامات کے خلاف 3 درخواستیں دائر کی ہیں، چیئرمین پی ٹی آئی 2018 انتخابات میں میانوالی سے رکن اسمبلی منتخب ہوئے، الیکشن ایکٹ ہر رکن اسمبلی کو اثاثہ جات کی تفصیل جمع کروانے کا کہتا ہے۔لطیف کھوسہ نے کہا کہ 6 اراکین اسمبلی نے چیئرمین پی ٹی آئی کی نااہلی کے لیے سپیکر اسمبلی کے پاس ریفرنس بھیجا، اراکین اسمبلی نے چیئر مین پی ٹی پر اثاثوں کی غلط ڈیکلریشن کا الزام لگایا، سپیکر اسمبلی نے ریفرنس الیکشن ایکٹ کے سیکشن 137 کے تحت چیف الیکشن کمشنر کو بھجوا دیا۔جسٹس مظاہر علی اکبر نے لطیف کھوسہ کو ہدایت دی کہ الیکشن ایکٹ کا سیکشن 137 پڑھیں، لطیف کھوسہ نے کہا کہ قانون کے مطابق الیکشن کمیشن 120 روز میں ہی کارروائی کرسکتا ہے۔جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ کیا ایک ممبر دوسرے کے خلاف ریفرنس بھیج سکتا ہے، لطیف کھوسہ نے کہا کہ کوئی ممبر ریفرنس نہیں بھیج سکتا الیکشن کمیشن خود بھی ایک مقررہ وقت میں کارروائی کرسکتا ہے، مالی گوشوارے جمع کرانے کے بعد 120 دن میں ہی کارروائی ہوسکتی ہے۔جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ کیا ایک رکن اسمبلی کسی دوسرے کیخلاف شکایت درج کرا سکتا ہے؟ لطیف کھوسہ نے کہا کہ میرے مطابق رکن اسمبلی شکایت درج نہیں کرا سکتا، سپیکر ریفرنس بھیجتا ہے، چیئرمین پی ٹی آئی کیخلاف سپیکر نے ریفرنس بھیجا لیکن 120 دن گزرنے کے بعد، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آپ کا کیس تو ہائی کورٹ کے فیصلے کیخلاف ہے شکایت کی قانونی حیثیت پر نہیں۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ٹرائل کورٹ سے مقدمہ ختم ہوچکا اب کس کو ریمانڈ کیا جا سکتا ہے؟ موجودہ کیس کا سزا کیخلاف مرکزی اپیل پر کیا اثر ہوگا؟ لطیف کھوسہ نے کہا کہ عدالت کو گھڑی کی سوئیاں واپس پہلے والی پوزیشن پر لانا ہوں گی۔چیف جسٹس نے کہا کہ ہر مرتبہ غلط بنیاد پر بنائی گئی عمارت نہیں گر سکتی، الیکشن کمیشن نے 21 اکتوبر کو سیشن عدالت میں کیا آپ کا موقف ہے کہ شکایت قابل سماعت نہیں تھی؟ لطیف کھوسہ نے کہا کہ ہمارا موقف ہے کہ توشہ خانہ کی شکایت پہلے مجسٹریٹ کے پاس جانی چاہیے تھی۔چیف جسٹس عمر عطابندیال نے کہا کہ آپ ضابطہ فوجداری کی دفعہ 193 کو پڑھ کر اپنا سوال بتائیں، آپ کے مطابق اس معاملے پر ابتدائی کاروائی مجسٹریٹ کرکے ٹرائل سیشن عدالت ہی کرسکتی ہے، جسٹس مندوخیل نے کہا کہ قانون میں لکھا ہے کہ مجسٹریٹ شکایت کا جائزہ لے کر اسے سیشن عدالت بھیجے گا، قانون میں مجسٹریٹ کے جائزہ لینے کا مطلب کیا ہے ؟۔لطیف کھوسہ نے کہا کہ اس کا مطلب ہے کہ مجسٹریٹ جائزہ لے گا کہ شکایت بنتی بھی ہے یا نہیں ؟ قتل ہو نہ تو دفعہ 302 کی ایف آئی آر درج نہیں ہوسکتی، چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن ایکٹ کے تحت شکایت کون درج کرائے گا، لطیف کھوسہ نے کہا کہ شکایت الیکشن کمیشن فائل کرے گا اور شکایت بھیجنے کی اتھارٹی کسی اور کو دے گا، الیکشن کمیشن ہے کیا اس کی تعریف بھی دیکھیں۔لطیف کھوسہ نے جسٹس مظاہر نقوی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کے دائیں اور بائیں بہت سمجھدار لوگ بیٹھے ہیں اور بائیں طرف والے تو بہت ہی سمجھدار ہیں، سیکرٹری الیکشن کمیشن خود الیکشن کمیشن نہیں ہے۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آپ کا کیس یہ نہیں، لطیف کھوسہ نے کہا کہ میری درخواست یہی ہے کہ شکایت مجاز شخص نے دائر نہیں کی، سیکرٹری الیکشن کمیشن کو الیکشن کمیشن نے اتھارٹی نہیں دی تھی، سیکرٹری الیکشن کمیشن نے ڈسٹرکٹ الیکشن کمشنر کو شکایت بھیجنے کا کہہ دیا۔چیف جسٹس نے کہا کہ اختیارات کو صرف الیکشن کمیشن نیچے منتقل کرسکتا ہے، سیکرٹری الیکشن کمیشن بذات خود الیکشن کمیشن نہیں، چیف جسٹس الیکشن کمیشن کیا ہے اس کی تعریف پڑھیں، چیف الیکشن کمشنر چار صوبوں کے ممبران مل کر الیکشن کمیشن بنتا ہے۔لطیف کھوسہ نے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کیخلاف شکایت سیکرٹری نے بھیجی وہ مجاز نہیں تھا، جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ آپ یہ نقطہ کیسے سپریم کورٹ میں اٹھا سکتے ہیں، ہم دوسرے فریق کو سنے بغیر آپ کی اپیل کیسے مان سکتے ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کہہ رہے ہیں سیکرٹری کو الیکشن کمیشن قرار نہیں دیا جاسکتا، مرکزی اپیل تو اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے۔ لطیف کھوسہ نے کہا کہ وہ تو بعد کی بات ہے، سیشن جج فیصلے کے فوراً بعد لندن چلے گئے۔چیف جسٹس آف پاکستان عمرعطابندیال نے کہا کہ کیا ہم اس کیس کو خود سنیں یا ہائی کورٹ کو کہیں کہ وہ ان نکات کو سامنے رکھ کر فیصلہ کرے، آپ کی دلیل ہے کہ بادی النظر میں سیکرٹری الیکشن کمیشن شکایت نہیں بھیج سکتا تھا، سیشن کورٹ کو شکایت مسترد کرنی چاہئے تھی۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ مسترد کیوں واپس بھیجنے کی بات کیوں نہیں کررہے، اپنی حد تک بات کروں تو اس معاملے کا فیصلہ تو ہائی کورٹ میں اپیل کے ساتھ ہوگا، چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا آپ نے ہائی کورٹ میں یہ سوال اٹھائے؟ کیا ہائی کورٹ نے ان نکات پر فیصلہ نہیں کیا کہ آپ یہاں آگے، کیا آپ چاہتے ہیں کہ ہم ان نکات پر فیصلہ کریں یا ان نکات کو ہائی کورٹ کے لیے ہائی لائٹ کریں۔لطیف کھوسہ نے کہا کہ ایک ایسی عدالت نے سزا سنائی جس کا دائرہ اختیار ہی نہیں بنتا، چیف جسٹس نے کہا کہ دائرہ اختیار کا معاملہ بھی ہائی کورٹ اپیل میں سن سکتی ہے، آپ نے پانچ اگست کا فیصلہ ہائی کورٹ میں چیلنج کر رکھا ہے، آپ ہم سے کیا چاہتے ہیں۔لطیف کھوسہ نے کہا کہ ہائی کورٹ بار بار اسی جج کو کیس ریمانڈ بیک کرتی رہی، جسٹس جمال ندوخیل نے کہا کہ اب تو ریمانڈ بیک ہونے پر ٹرائل کورٹ اپنا فیصلہ سناچکی۔لطیف کھوسہ نے کہا کہ نہ ، نہ ہمارے ساتھ مذاق ہوا ہے، سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ پہلے سماعت ہونے کا معامہ طے ہوگا، ہائیکورٹ نے اس پر کچھ نکات پر ٹرائل کورٹ کو فیصلہ کرنے کا کہا، ٹرائل کورٹ نے ہائی کورٹ کے ان نکات کو گھاس بھی نہیں ڈالا۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے لطیف کھوسہ سے مکالمہ کیا آپ ہر بات ہر ہائیکورٹ پر اعتراض اٹھاتے ہیں ، آپ فیصلوں پر اعتراض اٹھائیں ہائیکورٹ پر نہیں، آپ کو ہائیکورٹ کے فیصلے پسند نہیں آئے آپ ہمارے پاس آ گئے، عدالت پر اعتراض نہ اٹھائیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ یہ بہت اہم معاملہ ہے فیصلے پبلک ہوتے ہیں، فیصلوں پر تنقید ہوتی ہے اور فیصلوں تک ہی رہنی چاہیے، ادارے ایسے ہی کام کر سکتے ہیں، جسٹس مندوخیل نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے کرپٹ پریکٹس کا فیصلہ دینے کے کتنے دن بعد شکایت بھیجی۔لطیف کھوسہ نے کہا کہ قانون میں دنوں کا تعین اثاثوں کے تفصیل جمع کرانے کے بعد سے لکھا ہے، سردار لطیف کھوسہ قانون پڑھ کر سنایا، چیف جسٹس نے کہا کہ 342 اسمبلی ممبران پھر صوبائی ممبران سب کی تفصیل الیکشن کمیشن 120 دن میں کیسے دیکھ سکتا ہے ؟۔چیف جسٹس نے کہا کہ 120 دن کہاں سے شروع ہوں گے، یہ دیکھنے کے لیے اپنا مائنڈ اپلائی کرنا ہو گا۔ لطیف کھوسہ نے کہا کہ میرا مقدمہ بار بار ایک ہی جج کو بھجوایا گیا، چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کسی عدالت پر تعصب کا الزام نہیں لگا سکتے، سپریم کورٹ یہاں سول جج تک اپنے تمام ججز کا دفاع کرے گی۔لطیف کھوسہ نے کہا کہ ہم نے اس عدلیہ کے لیے اپنا خون بہایا ہے، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اس لیے تو آپ سے توقعات زیادہ ہیں۔ لطیف کھوسہ نے کہا کہ ہم آپ کے لیے حاضر ہیں، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ہمارے لیے نہیں اس چیئر کے لیے۔چیف جسٹس نے کہا کہ ہائی کورٹ نے معاملہ ٹرائل کورٹ بھیجا تھا جس کے بعد ٹرائل کورٹ نے فیصلہ کیا، لطیف کھوسہ نے کہا کہ وہ جج فیصلہ دیکر لندن روانہ ہو گئے ہیں، چیف جسٹس نے کہا کہ لندن والی بات نہ کریں، آپ صرف یہ بتائیں ہائی کورٹ کے بتائے نکات پر ٹرائل کورٹ نے فیصلہ کیا یا نہیں۔لطیف کھوسہ نے کہا کہ ٹرائل کورٹ نے ان نکات پر فیصلہ نہیں کیا، کیس قابل سماعت ہونے کا اپنا سابقہ فیصلہ بحال کردیا، ان جج صاحب نے فیس بک پر چیئرمیں پی ٹی آئی کے خلاف زہر اگلا ہوا تھا۔چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل لطیف کھوسہ کے دلائل مکمل ہونے کے بعدڈی جی الیکشن الیکشن کمیشن اورالیکشن کمیشن کے وکیل محمد امجد پرویز ایڈووکیٹ نے دلائل دیئے۔ چیف جسٹس نے امجد پرویز سے سوال کیا کہ ملزم کے وکلاء کو جواب دینے کے لئے ٹرائل کورٹ نے کتنے دن کا وقت دیا۔ اس پر امجد پرویز نے بتایا کہ عدالت نے ملزم کے وکیل کو متعدد بار بلایا لیکن وہ پیش نہیں ہوا جس پر عدالت نے فیصلہ محفوظ کر لیا اورسزاسنائی۔ اس پر چیف جسٹس کا کہنا تھاکہ ڈیفیکٹ توآگیا ، ایک ہی دن تین عدالتوں میں کیس کا فوری فیصلہ ہو گیا۔ چیف جسٹس نے الیکشن کمیشن کے وکیل کو ہدایت کی کہ وہ کل (جمعرات)کو دن ایک بجے آکر دلائل دیں ۔اس پر امجد پریز نے بتایا کہ پرسوں سماعت رکھ لیں ۔تاہم عدالت نے کہا اسلام آباد ہائی کورٹ کل (جمعرات)کی صبح سماعت کرے اور پھر دن دوبجے ہمارے پاس آجائیں۔ سپریم کورٹ نے توشہ خانہ کیس کی سماعت آج (جمعرات کو)دن دو بجے تک ملتوی کردی۔عدالت نے الیکشن کمیشن اورالیکشن کمیشن کے وکیل کو نوٹسز جاری کرتے ہوئے دلائل کے لئے طلب کر لیا۔