صدر عارف علوی کی  پانچ سالہ صدارت کی مدت  مکمل

عارف علوی  کو نئے صدارتی انتخاب تک  عہدہ برقراررہنے کا اختیارحاصل ہے

ان کے دور میں اہم معاملات میں وزیر اعظم شہبازشریف سے حلف  نہ لینا اور عمران خان کے کہنے پر قومی اسمبلی تحلیل کرنا تھا

آئین کے آرٹیکل 44 کے مطابق جانشین کے عہدہ سنبھالنے تک عارف علوی  عہدے پر فائز رہ سکتے ہیں

نئے صدارتی انتخاب کے لئے الیکٹرول کالج ہی موجود نہیں ہے  

اسلام آباد (ویب  نیوز)

صدر عارف علوی کی پانچ سالہ صدارت کی مدت  مکمل ہوگئی ۔  مدت پوری ہونے کے باوجودعارف علوی  کو نئے صدارتی انتخاب تک اپنے  عہدے پر برقراررہنے کا اختیار ہے  یہ اختیار 18ویں ترمیم کے تحت تفویض کیا گیا نئے صدارتی انتخاب کے لئے الیکٹرول کالج ہی موجود نہیں ہے  ، اہم معاملات میں  صدر کی جانب سے  وزیر اعظم شہبازشریف سے حلف  نہ لینا اور عمران خان کے کہنے پر قومی اسمبلی تحلیل کرنا تھا جو عدالت عظمی کی وجہ سے بچ گئی تھی  ۔تفصیلات کے مطابق صدر نے مدت مکمل کرلی انھوں نے  9ستمبر2018کو صدر کی حثیت سے حلف اٹھایا تھا  پی ٹی آئی اور اس کی اتحادی جماعتوں کی حمایت سے عارف علوی صدر منتخب ہوئے تھے ۔ نئے صدارتی انتخاب تک وہ عہدہ برقراررکھ سکتے ہیں۔آئین کے  تحت صدر کا انتخاب پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں یعنی سینیٹ اور قومی اسمبلی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کے ارکان کرتے ہیں۔عام انتخابات کب ہوں گے اس پر سوالیہ نشان برقرار ہے  جس کی وجہ سے غیر یقینی بھی برقرار ہے کہ عارف علوی کب تک اپنے عہدے پر فائز رہیں گے۔آئین کے مطابق صدر مملکت اپنی میعاد ختم ہونے کے باوجود اپنے جانشین کے عہدہ سنبھالنے تک اس عہدے پر فائز رہ سکیں گے۔ صدر عارف علوی نے تاحال ارادہ ظاہر نہیں کیا کہ وہ اس عہدے پر کام کرتے رہیں گے یا اس سے مستعفی ہو جائیں گے۔آئین کے آرٹیکل 41 کی شق چار کے مطابق صدر کا الیکشن صدارتی مدت ختم ہونے سے زیادہ سے زیادہ 60 اور کم سے کم  30 دن قبل کروایا جائے گا۔ اس دوران اگر اسمبلی توڑ دی گئی ہو تو صدارتی انتخاب عام انتخابات ہونے کے بعد 30 دن کے اندر کروایا جائے گا۔اس اعتبار سے صدارتی انتخاب آٹھ ستمبر سے 30 دن قبل ہونا تھا۔اس وقت الیکٹورل کالج مکمل نہیں ہے کیونکہ پنجاب، سندھ، بلوچستان اور خیبرپختونخوا اسمبلیاں موجود نہیں ہیں، یہی وجہ ہے کہ الیکٹورل کالج مکمل نہ ہونے کے باعث صدر کا انتخاب بھی نہیں ہو سکتا۔آئین کے آرٹیکل 44 ون کے مطابق صدر اپنے عہدے کی میعاد ختم ہو جانے کے باجود نئے صدر کے انتخاب اور عہدہ سنبھالنے تک اپنے عہدے پر فائز رہے گا۔اس طرح آئین کی رو سے صدر عارف علوی نئے عام انتخابات ہونے اور پھر الیکٹورل کالج مکمل ہونے کے بعد نئے صدر کے انتخاب اور عہدہ سنبھالنے تک بطور صدر مملکت اپنے فرائض انجام دیتے رہیں گے۔آئینی و پارلیمانی امور کے ماہر اور پلڈاٹ کے سربراہ احمد بلال محبوب نے اس حوالے سے  ایک انٹرویو میں  بتایا کہ آئین کے مطابق صدر عارف علوی مدت صدارت ختم ہونے کے باوجود اپنے عہدے پر موجود رہیں گے، جب تک کہ اگلے صدر کا انتخاب نہ ہو جائے۔ اس بات میں کوئی کنفیوژن نہیں ہے اور نہ ہی اس کے لیے کسی توسیع یا نوٹیفیکیشن کی ضرورت ہے۔مدت پوری ہونے کے باوجود صدر کے کام جاری رکھنے کے حوالے سے سوال پر انہوں نے بتایا کہ آئین نے صدر کو یہ اختیار دے رکھا ہے کہ وہ کام جاری رکھیں گے۔صدر عارف علوی کے عہدے سے مستعفی ہونے سے متعلق سوال پر احمد بلال نے کہا کہ انہیں نہیں لگتا کہ وہ استعفی دینے والے ہیں لیکن اگر وہ چاہیں تو استعفی کسی بھی وقت دے سکتے ہیں، اس صورت میں چیئرمین سینیٹ قائم مقام صدر کے طور پر فرائض انجام دیں گے۔اس طرح ڈاکٹر عارف علوی کے صدارت چھوڑنے کی صورت میں چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی اگلے عام انتخابات کے بعد نئے صدر کے انتخاب تک صدر کے طور پر کام کریں گے۔ پارلیمانی حلقوں اور بعض آئینی ماہرین کے مطابق عمومی طور صدر کا عہدہ خاموش ہی تصور کیا جاتا ہے لیکن گذشتہ ڈیڑھ سال کے عرصہ میں ایوان صدر مسلسل توجہ کا مرکز بنا رہا۔ عارف علوی نے گذشتہ حکومت کو کچھ معاملات میں ٹف ٹائم دیا لیکن کافی معاملات کو خوش اسلوبی سے نبھایا۔سابق چیئرمین سینیٹ اور  پیپلز پارٹی کے سینیٹر رضا ربانی نے  نے اپنے ایک  بیان میں الزام عائد کیا ہے کہ  صدر عارف علوی نے کئی بارآئین کی خلاف ورزی کی۔صدر کی طرف سے مشاورت کے بغیر آرڈیننس کا نفاذ  بھی آئین کے آرٹیکل 89(1) کی خلاف ورزی ہے،انہوں نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے دو ارکان کی تقرری سے متعلق  صدرکی کاروائی پر بھی اعتراض اٹھا یا ہے ۔ گیس انفراسٹرکچر ڈیویلپمنٹ سیس آرڈیننس کو بھی عدلیہ کے خلاف قرار دیا جس کا نفاذ کسی بین الوزارتی مشاورت کے بغیر کیا گیا۔اسی طرح، آئین کی ایک اور مبینہ خلاف ورزی می نشاندہی کرتے ہوئے کہا ہے کہ پی ایم ڈی سی  آرڈیننس کا دوبارہ نفاذ ہے شامل ہے  جسے سینیٹ نے آئین کے آرٹیکل 89 کے تحت مسترد کر دیا تھا۔انہوں نے اعلی عدلیہ کے دو ججوں کے خلاف دائر ریفرنس پر بھی صدر کو تنقید کا نشانہ بنایا۔سینیٹررضا ربانی  نے  کئی اور   نشاندہی بھی  کی ہیں ۔ان میں این ایف سی نوٹیفکیشن کو عدلیہ سے کالعدم قرار دینے کا معامہ بھی شامل ہے ۔جب کہ ان کا کہنا تھا کہ صدر نے2022میں اس وقت کے  وزیراعظم عمران خان کی جانب سے قومی اسمبلی تحلیل کرنے کی ایڈوائس کو بھی قبول کر لیا تھا اور اسمبلی تحلیل کردی تھی تاہم سپریم کورٹ کی مداخلت پر اس موقع پر اسمبلی بچ گئی  میاں رضاربانی نے اس امر کی بھی نشاہدہی کی ہے کہ  صدر نے مبینہ طور پر وزیر اعظم شہبازشریف سے حلف لینے سے انکار کر دیا تھا۔انہوں نے  یہ بھی کہا  ہے کہ صدر نے دو بلوں کی منظوری دی اور نہ ہی اسے پارلیمنٹ کو واپس بھیجا بلکہ اس کے بجائے صدارتی عملے پر الزام عائد کیا اور اس طرح انہوں نے آئین کے آرٹیکل 75 کے تحت اپنی آئینی ذمہ داری کو بھی مبینہ طور پر نظرانداز کیا۔رضا ربانی نے یہ بھی کہا کہ صدر نے عام انتخابات کی تاریخ کے اعلان کے لیے آئین کے آرٹیکل 48 کی غلط تشریح کی ۔یاد رہے کہ صدر مملکت عارف علوی کی جانب سے چیف الیکشن کمشنر کو عام انتخابات کے لیے مناسب تاریخ کا تعین کرنے کے لیے ملاقات کی دعوت دی گئی تھی جسے کمیشن نے مسترد کردیا تھا۔ یا درہے کہ ڈاکٹر عارف علوی پانچ سالہ مدت پوری کرنے والے ملک کے جمہوری طور پر منتخب ہونے والے چوتھے صدر بن جائیں گے ۔اس سے قبل تین صدور نے اپنی مدت مکمل کی ہے، جن میں چوہدری فضل الہی ، آصف علی زرداری اور ممنون حسین شامل ہیں۔ کچھ آئینی ماہرین کا  یہ بھی کہنا ہے کہ ڈاکٹر عارف علوی نئے صدر منتخب ہونے تک ایوان صدر ہی کے مکین رہیں گے اور بطور صدر اپنی فرائض سر انجام دیں گے۔ڈاکٹر عارف علوی کی پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ دیرینہ وابستگی ہے اور ان کا شمار سابق وزیر اعظم عمران خان کے قابلِ اعتماد دوستوں میں بھی ہوتا ہے۔ ڈاکٹر عارف علوی کتنی دیر تک عہدے پر فائز رہیں گے، اس کا صرف اندازہ ہی لگایا جا سکتا ہے۔اپریل 2022 میں اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے سے قبل تک صدر عارف علوی ایوان صدر کی ذمہ داریاں  آسانی سے ہموار طریقے سے نبھاتے رہے لیکن اپنی پارٹی کی حکومت کے خاتمے کے بعد نئی حکومت کے ساتھ ان کے تعلقات میں اتار چڑھا ؤآتے رہے۔ تحریکِ انصاف کے سینیئر رکن عارف علوی عارف علوی جولائی 2018میں ہونے والے عام انتخابات میں کراچی سے تحریکِ انصاف کے ٹکٹ پر کراچی کے حلقہ 247 سے رکنِ قومی اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔ پاکستان کے آئین کے مطابق انھوں نے  صدر بننے کے بعد یہ نشست خالی کردی تھی ۔ ڈاکٹر عارف  علوی پیشے کے اعتبار سے ڈینٹسٹ ہیں ۔ 1996 میں عمران خان نے تحریکِ انصاف کے نام سے ایک نئی سیاسی جماعت کا آغاز کیا تو وہ اس میں شامل ہو گئے۔وہ تحریکِ پاکستان کے ‘نیا پاکستان’ کے منشور کے مصنفوں میں بھی شامل ہیں۔تحریک انصاف میں ان کا سیاسی سفر 1997 میں پارٹی کا سندھ کا صدر بننے سے شروع ہوا تھا۔ سنہ 2001 میں وہ مرکزی نائب صدر کے عہدے پر فائز ہوئے۔ سنہ 2006 میں پارٹی کے جنرل سیکرٹری بنائے گئے اور سنہ 2013 تک اس عہدے پر رہے۔انھوں نے تحریک انصاف کے ٹکٹ پر پہلا الیکشن سنہ 1997 میں صوبائی حلقے سے لڑا لیکن کامیاب نہیں ہو سکے۔ سنہ 2002 کے انتخابات میں انھوں نے کراچی سے قومی اسمبلی کی نشست پر قسمت آزمائی کی لیکن اس میں بھی شکست ہوئی۔البتہ 2013 کے انتخابات میں وہ ایم کیو ایم کی خوش بخت شجاعت کو دوبارہ گنتی کے بعد ہرا کر پہلی بار قومی اسمبلی تک پہنچنے میں کامیاب رہے تھے۔