فیض آباد دھرنے فیصلے پر عمل ہو جاتا تو بعد میں سنگین واقعات نہ ہوتے،چیف جسٹس قاضی فائز عیسی
ملک میں کنٹینر لگانے کی روایت 12مئی 2007سے پڑی اس سے پہلے کنٹینر نہیں ہوتے تھے
جہاں سے نظرثانی آنی چاہیئے تھی وہاں سے نہیںآئی ،ٹی ایل پی اور مرحوم خادم حسین رضوی مطمئن تھے اور انہوں نے فیصلہ قبول کیا
آپشن ہی نہیں کہ حکم پر عملدرآمد نہ کیا جائے جب تک اس حکم پر نظرثانی نہ ہوجائے
جن کو جمہوریت چاہیئے تھی وہ کینڈاسے یہاں کیوں نہیں آتے
ہم ریاستی اداروں کی تعمیر چاہتے ہیں اورانہیں انڈمائن نہیں کرنا چاہتے
فیض آباد دھرنا کیس اہم معاملہ ہے، دیکھا جائے گا اسے براہ راست نشر کیا جائے یا نہیں
چیف جسٹس کے فیض آباد دھرنا نظر ثانی درخواستوں کی سماعت کے دوران ریمارکس
سماعت یکم نومبر تک ملتوی ، فریقین کو 27ستمبر تک تحریری جواب جمع کروانے کی ہدایت کیس
اسلام آباد(ویب نیوز)
سپریم کورٹ میں فیض آباد دھرنا نظر ثانی درخواستوں کی سماعت کے دوران چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیئے ہیں کہ فیصلے پر عمل ہو جاتا تو بعد میں سنگین واقعات نہ ہوتے، ہر کوئی سچ بولنے سے اتنا خوفزدہ کیوں ہے ۔جہاں سے نظرثانی آنی چاہیئے تھی وہاں سے نہیں ،تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی)اور مرحوم خادم حسین رضوی مطمئن تھے اور انہوں نے فیصلہ قبول کیا۔ ملک میںکنٹینر لگانے کی روایت 12مئی 2007سے پڑی اس سے پہلے کنٹینر نہیں ہوتے تھے میں نے پاکستانی سیاست میں کنٹینر لگانے والی چیز12مئی 2007کے بعد دیکھی۔ ہم ریاستی اداروں کی تعمیر چاہتے ہیں اورانہیں انڈمائن نہیں کرنا چاہتے۔ ہم چپ رہیں گے کچھ کہیں گے بھی نہیں اتنے ڈرپوک ہیں۔ آپشن ہی نہیں کہ حکم پر عملدرآمد نہ کیا جائے جب تک اس حکم پر نظرثانی نہ ہوجائے۔ ہر کوئی قابل احتساب ہے، ہم بھی عوام کے سامنے جوابدہ ہیں، روشن مستقبل احتساب کے بغیر ممکن نہیں۔ پہلے سچ کو تسلیم توکریں، جرم اگر ہوا ہے اعتراف توکرلیں ، جزاسزاتوبعد کی بات ہے۔جن کو جمہوریت چاہیئے تھی وہ کینڈاسے یہاں کیوں نہیں آتے۔فیض آباد دھرنا کیس اہم معاملہ ہے، دیکھا جائے گا اسے براہ راست نشر کیا جائے یا نہیں۔جبکہ اٹارنی جنرل بیرسٹر منصور عثمان اعوان نے عدالت کو بتایا کہ متعلقہ فیصلے پر عملدرآمد ہورہا ہے، دوماہ کا مزید وقت دیا جائے تاکہ دکھا سکیں کہ عملدآمد شروع ہو گیا ہے، تاہم عدالت نے کہا کہ ایک ماہ کاوقت کافی ہے۔ عدالت نے کیس کی سماعت یکم نومبر
تک ملتوی کرتے ہوئے فریقین کو 27ستمبر تک تحریری جواب جمع کروانے کی ہدایت کی ہے۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں، جسٹس امین الدین خان اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ دوران سماعت حکومت پاکستان بوساطت سیکرٹری وزارت دفاع کی جانب سے اٹارنی جنرل بیرسٹر منصور عثمان اعوان،انٹیلیجنس بیورو (آئی بی)کی جانب سے ڈپٹی اٹارنی جنرل، الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب وکیل ملک قمر افضل، پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے وکیل سینیٹر بیرسٹر سید علی ظفر، مسلم لیگ ضیاء کے سربراہ اعجاز الحق کی جانب سے وکیل ایم اے غفارلحق، پیمرا کی جانب سے حافظ اے رحمان بطور وکیل پیش ہوئے جبکہ ایم کیوایم پاکستان کے وکیل عرفاق قادر اورعوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد کے وکیل امان اللہ کنرانی پیش نہیں ہوئے۔ اٹارنی جنرل منصورعثمان نے کمرہ عدالت میں فیض آباد دھرنا کیس کاآپریٹو پارٹ فیصلہ پڑھ کر سنایا۔چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ اس دھرنے کے بعد کئی اور ایسے ہی واقعات سامنے آئے، اگر اس وقت اس فیصلہ پر عمل ہوتا تو بعد میں سنگین واقعات نہ ہوتے، ہم فیصلے میں دی گئی 17 ہدایات پر عمل سے صحیح سمت میں چلیں گے اللہ تعالیٰ نے سورة توبہ کی آیت19میں فرمایا ہے کہ! اے ایمان والواللہ سے ڈرو اور سچے لوگوں کاساتھ دو ، آپ لوگوں نے فیصلے کو آج سچ مان لیا، اب آپ کا امتحان ہے کہ آپ ساتھ دیتے ہیں یا نہیں، دیکھنا ہوگا کہ لائیو یہ کیس نشر ہوسکتا ہے یا نہیں۔چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ فیصلہ کرنے والے دومیںسے ایک جج جسٹس مشیر عالم ریٹائر ہو گئے ہیں۔ٹارنی جنرل نے کہا کہ وفاق اس کیس میں دفاع نہیں کرنا چاہتا۔چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ اب کیوں کیس واپس لینا چاہتے ہیں؟ پہلے کہا گیا فیصلے میں غلطیاں ہیں، اب واپس لینے کی وجوہات تو بتائیں۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ نظرِ ثانی اپیل جب دائر کی گئی اس وقت حکومت اور تھی۔چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ آپ نے تحریری درخواست کیوں دائر نہیں کی؟اٹارنی جنرل منصورعثمان اعوان نے جواب دیا کہ میں اپنا بیان دے رہا ہوں۔پیمرا کے وکیل حافظ ایس ا ے رحمان نے کہا کہ میں بھی اپنی نظرِ ثانی اپیل واپس لے رہا ہوں۔چیف جسٹس پاکستان نے سوال کیا کہ کس کی ہدایات پر واپس لے رہے ہیں؟ٹی وی چینلز اور یوٹیوب چینلز پرلمبے لمبے تبصرے کیے جاتے ہیں، شیچ رشید کے وکیل وزیر بن گئے ہیں تو اپنا متبادل مقرر کر کے آجائیں، پہلے کچھ باتوں کی وضاحت کرنا چاہتا ہوں، یہ ریگولر بینچ ہے خصوصی بینچ نہیں، نظرِ ثانی درخواستیں فوری مقرر ہوتی ہیں، مگر یہ 4 سال مقرر نہ ہوئیں، فیصلہ دینے والے ایک جج ریٹائرڈ ہو چکے اس لیے اس بینچ کے سامنے کیس نہیں لگا۔دوران سماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)نے بھی درخواست واپس لینے کی استدعا کر دی۔پی ٹی آئی وکیل سینیٹر بیرسٹر سید علی ظفر نے کہا کہ ہم پی ٹی آئی کی درخواست کی پیروی نہیں کرنا چاہتے۔چیف جسٹس پاکستان نے علی ظفر سے سوال کیا کہ کیا آپ کو درخواست واپس لینے کا اختیار ہے؟ اگر آپ فریق بننا چاہتے ہیں تو عدالت آپ کو اجازت دے گی۔بیرسٹر علی ظفر نے جواب دیا کہ نہیں ہم اس کیس میں فریق نہیں بننا چاہتے۔چیف جسٹس پاکستان نے سوالات اٹھاتے ہوئے کہا کہ پہلے کہا گیا تھا فیصلہ غلطیوں سے بھرا پڑا ہے، اب کیا فیصلے میں غلطیاں ختم ہو گئیں؟ کیا نظرِ ثانی درخواستیں واپس لینے کی کوئی وجہ ہے؟ جو اتھارٹی میں رہ چکے وہ ٹی وی اور یوٹیوب پر تقاریر کرتے ہیں، کہا جاتا ہے کہ ہمیں سنا نہیں گیا،اب ہم سننے کیلئے بیٹھے ہیں، آکر بتائیں، ہم یہ درخواستیں زیر التوا رکھ لیتے ہیں، کسی نے کچھ کہنا ہے تو تحریری طور پر کہے، آپ طویل پروگرام کر لیں مگر ہر ادارے کو تباہ نہ کریں، یہاں آپ خاموش ہیں اور ٹی وی پر کہیں گے کہ ہمیں سنا نہیں گیا، ہم پیمرا کی درخواست زیر التوا رکھیں گے، کل کوئی یہ نہ کہے ہمیں سنا نہیں گیا، سوال تو اٹھتا ہے کہ فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے پر عمل کیوں نہیں ہوا؟ آخر سب اتنے ڈرے کیوں ہوئے ہیں؟اٹارنی جنرل نے کہا کہ فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے پر عمل ہونا چاہیے۔جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ فیض آباد دھرنا کیس لینڈ مارک ججمنٹ ہے، کیس کے فیصلے پر عمل ہونا چاہیے۔شیخ رشید کی جانب سے ایڈووکیٹ آن ریکارڈشیخ محمود احمد کی درخواست کی پیروی جاری رکھنے کی استدعا کی گئی۔چیف جسٹس نے وکیل سے سوال کیا کہ آپ نے نیا وکیل کرنا ہے یا دلائل دینے ہیں؟ ہم نے تو صرف آئی ایس آئی کی رپورٹ پر کہا تھا، کچھ سیاستدانوں نے غیرذمہ دارانہ بیان دیے، ہم نے کسی کا نام نہیں لیا، آپ نے خود سے اخذ کر لیا کہ آپ کا ذکر ہے، اداروں کو تباہ نہ کریں، عوامی اداروں کے بارے میں ایسا نہ کریں، یہ حکم نہیں بلکہ درخواست ہے، اگر کسی نے کوئی بات کرنی ہے تو تحریری صورت میں کرے، 2017 کا معاملہ ہے، جہاں سے نظرِ ثانی آنے کی امید تھی وہاں سے تو نہیں آئی، خادم رضوی قابل تعریف ہیں کہ انہوں نے غلطی تسلیم کی تھی، جس کے بارے میں فیصلہ تھا اس نے پورے دل سے تسلیم کیا، غلطیاں سب سے ہوتی ہیں، بڑا پن غلطی تسلیم کرنے میں ہے۔چیف جسٹس نے پی ٹی آئی کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ میں تیسری مرتبہ شرعی اصول کے تحت پوچھ رہا ہوں، کیا آپ واقعی درخواست واپس لینا چاہتے ہیں؟وکیل علی ظفر نے کہا کہ میں ہدایات کی روشنی میں کہہ رہا ہوں، ہم دفاع نہیں کرنا چاہتے۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ آپ اچھی شہرت کے وکیل ہیں، ہمیں آپ پر یقین ہے، عرفان قادر صاحب کو نوٹس کر دیے ہیں۔چیف جسٹس نے اعجاز الحق کے وکیل سے سوال کیا کہ آپ کہنا چاہ رہے ہیں آپ نے دھرنے کی حمایت نہیں کی؟ کیا آپ کہہ رہے ہیں کہ آئی ایس آئی کی رپورٹ درست نہیں تھی؟ کوئی بیان حلفی دے دیں کہ آپ کا موقف درست ہے، اٹارنی جنرل صاحب آپ سمیت سب پر جرمانہ کیوں نہ کیا جائے؟ عدالتی وقت ضائع کیا گیا، ملک کو بھی پریشان کیے رکھا، اب آپ سب آکر کہہ رہے ہیں کہ درخواستیں واپس لینی ہیں۔الیکشن کمیشن کے وکیل ملک قمر افضل نے کہا کہ الیکشن کمیشن نظرِ ثانی واپس لے رہی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ان فضول قسم کی درخواستوں پر اٹارنی جنرل پر جرمانہ عائد کرنا چاہیے۔چیف جسٹس پاکستان نے سوال کیا کہ الیکشن کمیشن تب ٹھیک تھا یا اب ہے؟کیا کوئی کنڈکٹر تھا جو یہ سب کرا رہا تھا؟ الیکشن کمیشن نے تب کس کے کہنے پر نظرِ ثانی دائر کی؟ آرکیسٹرا میں سب میوزک بجاتے ہیں اور سامنے ایک ڈنڈا لیے کمانڈ دے رہا ہوتا ہے، کیا الیکشن کمیشن تب کنٹرول ہو رہا تھا اب ہورہا ہے یا ہمیشہ سے ہوتا آیا؟ پاکستان میں وہ چلتا ہے جو پوری دنیا میں نہیں ہوتا، پاکستان میں کہا جاتا ہے کہ حکم اوپر سے آیا ہے، الیکشن کمیشن بتائے کہ کس نے کہا تھا کہ نظرِ ثانی دائر کر دو؟ نعوذ باللہ اوپر سے حکم اللہ کا نہیں یہاں کسی اور کا ہوتا ہے، عدالتوں کواپنے مقاصد کیلئے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے، نبی کریمۖ نے بھی جھوٹ سے منع کیا ہے، جو ہوا اس کا اعتراف تو کر لیں، جزا سزا بعد میں ہو گی، اعتراف جرم تو کریں، مان لیں کہ الیکشن کمیشن کو اس وقت فرد واحد کے حوالے کیا گیا تھا، آج الیکشن کمیشن آزاد ہو گیا ہے، ہمت ہے تو کہیں تب کون سب کچھ کنٹرول کر رہا تھا، پورے پاکستان کو منجمد کیا گیا، خادم رضوی مرحوم نے تو تسلیم کیا، آپ لوگ تو وہاں تک پہنچ بھی نہیں سکتے، کس کا ڈر ہے؟ اوپر والے کا تو نہیں ہے آخر کس سے ڈرتے ہیں؟ ٹی وی پر جا کر بھی تقریریں کریں گے تو عدالت کو ہی سچ بتا دیں۔اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے کہا کہ آپ کا فیصلہ تمام حقائق بیان کر رہا ہے۔چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ جب فیصلہ درست ہے تو نظرِ ثانی میں کیوں آئے؟ کون سا نقص تھا جو تب فیصلے میں تھا اور اب نہیں ہے؟ کراچی میں 55 لوگ مرگئے، کوئی ایکشن نہیں ہوا، یہاں جو بھی ہو کہا جاتا ہے مٹی پا، لوگ مر جائیں مٹی پا، حضرت عمر نے کہا کہ دریا کے کنارے کتا بھی بھوکا مر جائے تو میں جوابدہ ہوں، جتھے کی طاقت کی نفی نہیں کی گئی، وہ آج بھی غالب ہے، سبق نہیں سیکھا ہم نے، جن صاحب کو بہت جمہوریت چاہیے تھی وہ کینیڈا سے واپس کیوں نہیں آتے؟ پارلیمنٹ میں بحث نہیں ہو رہی، جرمنی میں فاشزم تھی انہوں نے تسلیم کیا، اسلامی جمہوریہ پاکستان تو غلطیاں بھی تسلیم نہیں کرتا، مجھ سمیت احتساب سب کا ہونا چاہیے، احتساب سے کسی کو انکار نہیں ہونا چاہیے، اٹارنی جنرل صاحب یہ سوال کیوں نہیں اٹھایا کہ نظرِ ثانی درخواستیں پہلے کیوں نہ لگیں؟ یہ کہنا ٹھیک نہیں ہوتا نئی حکومت یا پرانی حکومت، حکومت حکومت ہی رہتی ہے پارٹی جو بھی ہو، سپریم کورٹ بھی وہی رہتی ہے جج چاہے کوئی بھی ہو۔وکیل اعجاز الحق نے کہا کہ ہمارا اس دھرنے سے کوئی لینا دینا نہیں تھا اور دھرنے کے حق میںان کے مئوکل نے کوئی بیان نہیں دیا تھا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے آئی ایس آئی رپورٹ کی روشنی میں آبزرویشن دی تھی۔چیف جسٹس نے وکیل اعجاز الحق سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ تحریری طور پر لکھ کر دیں کہ آپ نے فیض آباد دھرنے کو سپورٹ نہیں کیا۔وکیل اعجاز الحق نے کہا کہ اعجاز الحق کے حوالے سے جو آبزرویشنز دی گئیں وہ درست نہیں ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ کو اعتراض فیصلے پر نہیں بلکہ رپورٹ پر ہے، ہم نے فیصلے میں اعجاز الحق کا ذکر آئی ایس آئی رپورٹ کی روشنی میں کیا، آپ بیان حلفی دیں رپورٹ غلط تھی۔چیف جسٹس نے کہا کہ ہرجگہ کیوں کنٹینر لگائے جاتے ہیں؟ جنگی قیدیوں کا 80-80سال بعد بھی ٹرائل ہوتا ہے ایسی ہوتی ہیں زندہ قومیں ہماری طرح نہیں ہوتا کہ بس جو ہوگیا سو ہوگیا ایسا نہیں ہوتا آگے بڑھیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ ججز کے خلاف شکایات ہم سنتے ہیں ہم نے کسی سے اتھارٹی لی نہیں کل اگر کوئی ہمارے پاس آگیا کہ ایکشن لیں تو پھر کیا ہوگا؟ بہتر ہے خود ایکشن لیں ہم ریاستی اداروں کو مستحکم کررہے ہیں انہیں نیچا نہیں دکھا رہے ہمارا فیصلہ اس دورانیے کیلئے تھا ہم بہت کچھ لکھ سکتے تھے ہم نے فیصلے میں وہ لکھا جو ہمارے سامنے حقائق تھے، احتساب کے بغیر ملک کا مستقبل روشن نہیں ہوسکتا۔جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ایک صحافی کو ہراساں کرنے کی تصویر چھپی اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ سچ کی تلاش کا کمیشن تو بنا نہیں ہمیں ہمارا مواخذہ کرنا چاہیے، آج سب نے تسلیم کیا ہمارا فیصلہ سچا تھا، اب آپ پر منحصر ہے سچ کا ساتھ دینا ہے یا نہیں۔چیف جسٹس نے حکم لکھواتے ہوئے کہا کہ کچھ فریقین عدالت میں موجود نہیں لیکن ہم تمام فریقین کو ایک اور موقع فراہم کرتے ہیں، اٹارنی جنرل عدالتی فیصلے پر عمل درآمد کے بارے میں رپورٹ دیں، کوئی بھی فریق یا فرد تحریری جواب جمع کروانا چاہے تو 27 اکتوبر تک جمع کروا سکتا ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ ہم لائیو اسٹریمنگ کے لیے پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس کو ایک پائلٹ پراجیکٹ کے طور پر چلا رہے ہیں، لائیو اسٹریمنگ کے حوالے سے دو رکنی کمیٹی بنائی ہے جو اس وقت کام کرہی ہے، کمیٹی کی گزارشات کے بعد اس معاملے کو دیکھیں گے۔بعدازاں چیف جسٹس نے کیس کی سماعت یکم نومبر تک ملتوی کردی۔ZS
#/S