سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت منگل کوبھی مکمل نہ ہو سکی ،مزید سماعت آج(بدھ) کو دوبارہ ہوگی

اٹارنی جنرل بیرسٹر منصور عثمان اعوان آج(بدھ) کواپنے دلائل دیں گے

ہم کیوں ہچکچا رہے ہیں اگر ہم اپنا کام صیح کریں تو نہ اس قانون سازی کی ضرورت بنتی اورنہ کچھ ہوتا،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

سب سے پہلے ہر عدالت کو خوداحتسابی کرنا ہو گی، اس سے پہلے کوئی اوراس کا احتساب کرے

یہ کہنا کہ جو نظام آیا ہے وہ موجودہ نظام سے خراب ہے یہ غلط بات ہے،دوران سماعت ریمارکس

‘ا سلام آباد( ویب  نیوز) تین کپتان والی ٹیم جیت سکتی 

سپریم کورٹ آف پاکستان میں سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت منگل کے روز بھی مکمل نہ ہو سکی۔ عدالت نے کیس کی مزید سماعت آج(بدھ)دن ساڑھے11بجے تک ملتوی کردی۔ اٹارنی جنرل بیرسٹر منصور عثمان اعوان آج(بدھ) کے روزاپنے دلائل دیں گے۔منگل کے روز ایم کیوایم پاکستان کے وکیل فیصل صدیقی ایڈووکیٹ اور وائس چیئرمین پاکستان بارکونسل ہارون الرشید ایڈووکیٹ نے اپنے دلائل مکمل کر لئے۔ جبکہ دوران سماعت چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا ایم کیوایم پاکستان کے وکیل فیصل صدیقی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ایسے ہی مفروضہ دے رہا ہوں کہ ہم نے اس قانون کو اڑادیا، یہ قانون اُڑ گیا، ابھی کوئی رول بنانا ہے ، میں کہوں میں نہیں بیٹھتا اورفل کورٹ میٹنگ نہیں بلاتا تواس پر وکیل کیا کریں گے۔ہم کیوں ہچکچا رہے ہیں اگر ہم اپنا کام صیح کریں تو نہ اس قانون سازی کی ضرورت بنتی اورنہ کچھ ہوتا، اب جب قانون سازی بن گئی توہم کہیں گے کہ ہم کسی طرح جوابدہ نہیں ہیں، ہمارے پاس جتنے کیسز بڑھتے جائیں، ہم فیصلہ کریں یا نہ کریں ، دن میں ایک کیس سنیں یا 50کیس سنیں ، ہماری مرضی ہے، نہیں سوری، اس طریقہ سے چیزیں نہیں چل سکتیں،سب سے پہلے ہر عدالت کو خوداحتسابی کرنا ہو گی، اس سے پہلے کوئی اوراس کا احتساب کرے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یہ کہنا کہ جو نظام آیا ہے وہ موجودہ نظام سے خراب ہے یہ غلط بات ہے۔چیف جسٹس جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے موجودہ تمام17میں سے 15ججز پر مشتمل فل کورٹ نے منگل کے روز سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل2023کے خلاف دائر 10درخواستوں پر سماعت کی۔ اس وقت سپریم کورٹ میں ججز کی دوآسامیاں خالی ہیں۔فل کورٹ کی کاروائی پی ٹی وی پربراہ راست دکھائی گئی۔ بینچ کے دیگرججز میں سردار طارق مسعود، اعجاز الاحسن، سید منصور علی شاہ، منیب اختر، یحییٰ خان آفریدی، امین الدین خان، سید مظاہر علی اکبر نقوی، جمال خان مندوخیل، محمد علی مظہر، عائشہ اے ملک،اطہر من اللہ، سید حسن اظہر رضوی، شاہد وحید اور مسرت ہلالی شامل ہیں۔دوران سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا ایم کیوایم پاکستان کے وکیل فیصل صدیقی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آن لائٹر نوٹ، اتنے پیسے کلائنٹ نے نہیں دیئے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہمیشہ یہ کہا گیا ہے کہ اسی مسئلہ کو حل کرو جو آپ کے سامنے آئے،آئندہ کیا مسئلہ ہو گا، ہوسکتا ہے کبھی فل کورٹ نہ ہو، ہوسکتا ہے ہو جائے، آخری مرتبہ 2015میں 21ویں ترمیم کے معاملہ پر فل کورٹ بیٹھی تھی اس کے بعد توفل کورٹ نہیں بیٹھی، یہ اب تاریخ میں دوسری مرتبہ فل کورٹ آئی ہے۔  جسٹس سید مظاہر علی اکبر نے فیصل صدیقی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے سنا ہے کہ آپ سپورٹس مین ہیں، کبھی کوئی ٹیم دیکھی ہے جس کے تین کپتان ہوں اوروہ جیتی ہو، دیکھی ہے کبھی، صدیقی صاحب! کپتان ایک ہی اچھا لگتا ہے۔ سماعت کے آغاز پر فیصل صدیقی ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ وہ ایم کیو ایم پاکستان کی جانب سے عدالتی نوٹس پر پیش ہو رہے ہیں۔ چیف جسٹس نے انہیں ہدایت کی کہ سوال بھی پڑھیں اور ان کے ساتھ جواب بھی دے دیں۔ چیف جسٹس کا فیصل صدیقی کو مخاطب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ میںیہاں آپ کو سننے کے لئے بیٹھا ہوں ، وکیل اپنی گزارشات پوری کر لیں اس کے بعد ججز کے سوالوں کے جواب دے دیں، یہ ہنسنے کا معاملہ نہیں، ہمارے وقت کے ہر سیکنڈ کے پیسے عوام اداکرتے ہیں، پورے تین دن کیس سنا ہے اورآج چوتھا دن ہے،پہلے اپنی تھاٹس مکمل کر لیں، میں لکھ لوں کہ آپ کہنا کیا چاہتے ہیں۔ چیف جسٹس نے فیصل صدیقی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنی معروضات مکمل کر لیں اوراگروہ ایسا نہیں کریں گے تو پھر ہم ہمیشہ یہ کیس سنتے رہیں گے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم یہاں وکیل کو سننے کے لئے بیٹھے ہیں اگر کسی جج کو اختلاف ہو گاتوہ اپنے فیصلے میں لکھ دے گا۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے وکیل کو کہنے پر کہ وہ اپنے دلائل جاری رکھیں اور ججز کے دلائل نہ دیں ، جسٹس منیب اخترا ور چیف جسٹس کے درمیان مختلف جملوں کا تبادلہ بھی ہوا۔ جسٹس منیب اختر کا چیف جسٹس کو مکاطب کرنے ہوئے کہنا تھا کہ سر ! بنچ کا حصہ ہونے پر میرا حق ہے کہ میں سوال کروں، میرا مسئلہ میرا سوال ہے اور اس کا جواب دیں، اگر اس طرح سوال کے دوران خلل ڈالیں گے تو یہ نامناسب ہے۔چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ میں سوال میں خلل نہیں ڈال رہا، وکیل کو سن لیتے ہیں پھر سوالات کا جواب آجائے گا، ہمیں پہلے ہی رائے دینے کے بجائے فیصلہ لکھنا چاہیے۔ چیف جسٹس کا فیصل صدیقی کو مخاطب کرتے ہوئے کہنا تھاکہ مہربانی فرما کر اپنے دلائل جاری رکھیں ، اگر دلائل نہیں دینا چہاتے تو پھر بیٹھ جائیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ نے قانون بنایا ہے جو کہ موجودہ رولز کوتباہ کرتا ہے۔ فیصل صدیقی کادلائل میں کہنا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 184-3،آرٹیکل 191اورآرٹیکل 199میں کوئی آئینی پابندی نہیں لگائی گئی کہ انٹراکورٹ اپیل فراہم نہیں کی جاسکتی۔فیصل صدیقی نے کہا کہ پارلیمنٹ سپریم کورٹ کے اختیارات کو کم کرنے جیسی قانون سازی نہیں کر سکتی ، موجودہ قانون سے مگر یہ اصول متاثر نہیں ہوا۔جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ ایکٹ سے سپریم کورٹ کی آزادی میں مداخلت کی گئی۔جسٹس منیب اختر نے پوچھا کہ کیا لیجسلیٹیو انٹریز پارلیمنٹ کو سپریم کورٹ پر سپروائزری کا اختیار دیتی ہیں؟۔جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ ایکٹ سے پارلیمنٹ پر عائد تمام آئینی پابندیوں کی خلاف ورزی ہوئی۔فیصل صدیقی نے کہا کہ پارلیمنٹ پر 4 پابندیاں ہیں، پارلیمنٹ عدلیہ کی آزادی میں مداخلت نہیں کر سکتی، ہر پابندی کو ایکٹ کی شقوں کے ساتھ ملا کر بتاوں گا کہ پارلیمنٹ نے کیسے خلاف ورزی نہیں کی، پارلیمنٹ سپریم کورٹ کو سپروائز کر سکتی ہے۔جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ سپروائز کرنے کا مطلب تو سپریم کورٹ کو کنٹرول کرنا ہو گا۔وکیل فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ پارلیمنٹ کے سپروائزری اختیار کی بھی حدود ہیں۔جسٹس منیب اختر نے کہا کہ کیا لیجسلیٹیو اینٹریز پارلیمنٹ کو سپریم کورٹ پر سپروائزری کا اختیار دیتی ہیں؟جسٹس سید منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ اگر آرٹیکل 191 کو لیجسلیٹیو اینٹری 58 کے ساتھ ملا کر پڑھیں تو پارلیمنٹ کے پاس قانون سازی کا مکمل اختیار تھا، صلاح الدین نے اسی کا حوالہ دے کر کہا کہ پارلیمنٹ تو سپریم کورٹ رولز ختم بھی کر سکتی ہے، قانون میں اپیل لارجر بنچ کے سامنے بھیجنے کا کہا گیا، کیا یہ لارجر بنچ تمام نئے ججز پر مشتمل ہو گا؟ کیا پہلے کیس سننے والے بنچ میں ہی نئے جج شامل کر کے لارجر بنچ بنایاجائے گا؟فیصل صدیقی نے دلائل دیے کہ آئین کے تحت دیا گیا ایک اختیار قانون سازی کے اختیار کو ختم کہاں کرتا ہے؟ رولز بنانے کا اختیار سپریم کورٹ کو دیا گیا ہے،  رول بنانے کو مگر قانون سے مشروط کیا گیا ہے،  قانون سازی پر پابندی کہاں لگائی گئی ہے۔جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ جو آرٹیکل آپ پڑھ رہے ہیں اس کی لینگوئیج پابندی لگاتی ہے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ ایک چیز جو آئین میں نہ ہو اس کو قانون سازی سے بنا دینا کہاں ہوتا ہے؟جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ پارلیمنٹ کے پاس اختیار قانون سازی ہے، پارلیمنٹ نے انصاف تک رسائی کی ہی ایک قانون سازی کی ہے، جرمنی میں ایک نظام وضع کیا گیا جہاں ماسٹر آف روسٹر نہیں ہوتا۔جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ آرٹیکل 184/3 جب بھی استعمال ہوا ملک کی بنیادیں ہلا دیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ انتظامی طور پر بنائے گئے رولز جوڈیشل اختیاراستعمال کرتے ہوئے بھی بائنڈنگ ہیں؟ کوئی بنچ بیٹھ کر رولز کو غیر آئینی کہہ سکتا ہے؟ کیا بنچ 1980 کے رولز سے متعلق آرڈر دے سکتا ہے؟فیصل صدیقی نے کہا کہ چیف جسٹس کے کردار کو ریگولیٹ کرنے سے سپریم کورٹ کا اختیار کم نہیں ہوتا۔جسٹس منیب اختر فیصل صدیقی سے سوال کرنے لگے تو چیف جسٹس نے وکیل فیصل صدیقی کو روکتے ہوئے کہا کہ پہلے میرے سوال کا جواب دیں بعد میں دوسرے سوال پر آئیں، میں نے آج سب سے کم سوال پوچھے ہیں، ماسٹر آف روسٹر کو اتنا تو اختیار دیں۔جسٹس اعجاز الاحسن نے پوچھا کہ کیا پارلیمان کہہ سکتی ہے کہ کمیٹی میں تین نہیں پانچ ججز ہوں۔چیف جسٹس کا فیصل صدیقی سے مکالمے میں کہنا تھا کہ جسٹس اعجاز کہہ رہے ہیں سپریم کورٹ میں مداخلت ہوئی، آپ یہ کیوں نہیں کہتے ہاں مداخلت ہوئی کیونکہ چیف جسٹس اپنا کام نہیں کر رہے تھے، سادہ سی باتیں ہیں آپ کو ہچکچاہٹ کیا ہے ؟ کہہ سکتے ہیں ناں اگر یہ مداخلت بھی ہوئی تو اچھی ہوئی، کئی سال کیس نہ لگے اور ہم کہہ دیں ہماری مرضی ہم کسی کو جوابدہ نہیں؟ ہر ادارہ اپنا احتساب کرے اس سے پہلے کہ کوئی اور کرے۔ایم کیو ایم کے وکیل فیصل صدیقی نے دلائل مکمل کرلیے۔ جسٹس اعجاز لاحسن نے ایم کیو ایم پاکستان کے وکیل فیصل صدیقی کے دلائل کی تعریف کی اور کہا کہ وہ اچھی تیاری کے ساتھ پیش ہوئے اور انہوں نے اپنی بہترین صلاحیت کے تمام سوالوں کے جواب دیئے یا جواب دینے کی کوشش کی۔ وائس چئیرمین پاکستان بار کونسل ہارون الرشید نے ایکٹ کی حمایت میں دیئے گئے دلائل اپنالئے۔جبکہ اپنے مختصر دلائل میں ہارون الرشید کا کہنا تھا کہ جو ایکٹ پاس کیا گیا ہے اس میں سپریم کورٹ کی کاز کو بڑھایا گیا ہے کم نہیں کیا گیا، اگر پہلے ایک جج کے پاس اختیا ر تھا تواب وہ تین کے پاس اختیارآگیا ہے،قرآن مجید میں بھی مشورہ کرنے کا حکم دیا ہے ، پہلے مشاورت نہیں ہوتی تھی جس کی وجہ سے ہم نے سپریم کورٹ کے فیصلوں کا نقصان اٹھایا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ سابق چیف جسٹس نے خود تسلیم کیا تھا کہ ذولفقار علی بھٹو کیس میں جو آرڈر کیا تھا وہ ہماری غلطی تھی اورکوئی دبائو تھا۔ ان کاکہنا تھا کہ آرمی چیف کو یہ بھی اختیار دیا جاتا ہے کہ وہ صدر بھی بنے اورآرمی چیف بھی بنے، ہمارے چار آرمی چیف وردی میں صدر بھی رہے اوراس بات کا تعلق کسی آئین سے نہیں، کسی آئین میں یہ درج نہیں ہے کہ ایک آرمی چیف ہو گا جو الیکشن لڑے گااورصد پاکستان بنے گا۔ اس پر جسٹس جمال خان مندوخیل کا ہارون الرشید کو مخاطب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اس ایکٹ کا عدلیہ کی آزادی پرکوئی اثر نہیں پڑے گا۔ ہارون الرشید کا کہنا تھا کہ عدلیہ نے ماضی میں وہ اختیار بھی دیا جو آئین میں ہے ہی نہیں۔ چیف جسٹس نے ہارون الرشید کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کہتے ہیں کہ اپیل کا حق دے کر عدلیہ کی آزادی بڑھتی ہے کم نہیں ہوتی۔ اس پر ہارون الرشید نے ہاں میں جواب دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ظفر علی شاہ کیس میں فل بینچ نے آرڈر کیا ہوا ہے کہ آپ ملک کے چیف ایگزیکٹو بھی ہوں گے، آپ آئین میں بھی ترمیم کرسکتے ہو اورآپ نے صیح طور پر ایک جمہوری اور سیاسی حکومت کو ختم کیا ہے، اس طرح کے اگر فیصلے ہوں گے توہم مستقبل میں نہیں چل سکیں گے۔ میری اتنی استدعا ہے کہ ایسے فیصلے کیئے جائیں جو قوم اوردنیا کو نظرآئیں کہ یہ عدلیہ نے فیصلے کئے ہیں۔ اس پر جسٹس جمال خان مندوخیل کا ہارون الرشید سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ چاہتے ہیں کہ آزاد عدلیہ تو ہو لیکن وہ آئین اورقانون کی پابند ہو۔ اس پر ہارون الرشید کا کہنا تھا کہ آئین کی پابندہو۔ جبکہ اٹارنی جنرل بیرسٹر منصور عثمان اعوان کا کہنا تھا کہ وہ ایک گھنٹے میں دلائل مکمل کر لیں گے اس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آپ اگر اسلام آباد میں ہی موجود ہیں تو پھر آپ کو (بدھ)کے روز تازہ دم ہو کر سن لیں گے عدالت نے کیس کی مزید سماعت آج  (بدھ)دن ساڑھے 11بجے تک ملتوی کردی۔ZS

#/S