بینک کا یہ موقف بھی عجیب اور مضحکہ خیز ہے کہ یہ انٹرنیٹ کی دھوکہ دہی کا معاملہ ہے اور بینک اپنے صارف کی رقم کے نقصان کا ذمہ دار نہیں
اسلام آباد (ویب ڈیسک)
صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے بینکنگ محتسب کے فیصلہ کے خلاف مسلم کمرشل بینک کی اپیل کو مسترد کر دیا۔ بینکنگ محتسب نے اپنے حکم میں انٹرنیٹ بینکنگ فراڈ کا شکار ہونے والے مسلم کمرشل بینک کے ایک کھاتہ دار کی رقم واپس اکائونٹ میں جمع کرنے کی ہدایت کی تھی جس کے خلاف مذکورہ بینک نے صدر مملکت کو اپیل کی تھی۔ صدر مملکت نے کہا کہ بینک کا یہ موقف معقول نہیں کہ کسی انجان کالر کو ذاتی معلومات کی فراہمی کے نتیجہ میں رقم کی غیر مجاز منتقلی کی ذمہ داری متعلقہ صارف پر عائد ہوتی ہے۔ مذکورہ بینک کا یہ موقف بھی عجیب اور مضحکہ خیز ہے کہ یہ انٹرنیٹ کی دھوکہ دہی کا معاملہ ہے اور بینک اپنے صارف کی رقم کے نقصان کا ذمہ دار نہیں ہے کیونکہ صارف نے اپنے کوائف خود دیئے جو کہ بینک کی اپنے معصوم صارف سے متعلق اپنی مخلصانہ ذمہ داریوں سے لاپرواہی برتنا ہے۔ صدر مملکت نے اپنے فیصلے میں مزید کہا کہ مذکورہ بینک یہ وضاحت کرنے میں بھی ناکام رہا ہے کہ شکایت کنندہ کے اکائونٹ سے ایک دن میں 4 لاکھ 97 ہزار 600 روپے کی رقم ڈیبٹ کارڈ پر مقرر کردہ ایک روز کی حد ایک لاکھ روپے سے زیادہ کیسے منتقل ہو گئی۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایک سنگین خلا ہے جہاں سسٹم میں رقم کی منتقلی کے دوران انٹرنیٹ بینکنگ کی روزانہ کیلئے مقرر کردہ حد سے زیادہ رقم منتقل کرنے کی اجازت دی، اگر انٹرنیٹ بینکنگ کا نظام صحیح طور پر فعال ہوتا تو اس رقم کی منتقلی کو روکا جا سکتا تھا۔ مسلم کمرشل بینک کراچی کے اکائونٹ ہولڈر شوکت علی کے اکائونٹ سے 4 لاکھ 97 ہزار 600 روپے کی رقم اس وقت منتقل کر دی گئی جب اسے 28 اکتوبر 2018 کو اپنے موبائل فون پر محکمہ مردم شماری اور بینک کی جانب سے متعدد فون کالز موصول ہوئیں۔ نامعلوم فون کرنے والے نے شکایت کنندہ شوکت علی سے اس کے بینک اکائونٹ کی تفصیلات حاصل کیں جسے اس نے بینک کی جانب سے فون کالز سمجھ کر اپنے بینک اکائونٹ کی تفصیلات دیں، اس نے کھوئی ہوئی رقم کی وصولی کیلئے بینک کو متعدد شکایات کیں۔ بینک سے شکایات کا ازالہ نہ ہونے پر اس نے بینکنگ محتسب سے رجوع کیا۔ بینکنگ محتسب نے اپنے نتائج میں کہا ہے کہ شکایت کنندہ نے کبھی بھی انٹرنیٹ اورموبائل بینکنگ سہولت کیلئے درخواست نہیں کی اور نہ ہی وہ اس کے استعمال کے بارے میں کوئی معلومات رکھتا تھا تاہم بینک نے 2016 میں اس کے ڈیبٹ کارڈ کی حد میں اضافہ کی درخواست پر اس کی رضامندی لئے بغیر مذکورہ فیچر فعال کر دیا۔ مذکورہ بینک نے صارف کی جانب سے موبائل بینکنگ اور انٹرنیٹ بینکنگ کی درخواست یا اندراج کیلئے صارف کی رضامندی سے متعلق کوئی ثبوت نہیں دیا جو کہ سٹیٹ بینک آف پاکستان کے 21 اکتوبر 2015 کے سرکلر نمبر 3 of 2015 کی خلاف ورزی ہے۔ بینکنگ محتسب نے اپنے حکمنامہ میں مزید کہا ہے کہ اگر صارف نے کسی نامعلوم شخص کو اپنی ذاتی معلومات فراہم کر دی ہیں تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا اگر غیر مطلوب سہولت خودبخود فعال نہ ہو جو کہ شکایت کنندہ کی رضامندی اور علم میں بھی نہ ہو تو اکائونٹ ہولڈر نقصان سے بچ سکتا تھا۔ بینک کو یہ تجویز دی گئی کہ شکایت کنندہ کے اکائونٹ میں متنازعہ رقم کی منتقلی پر ودہولڈنگ ٹیکس اور دیگر چارجز کے ساتھ 4 لاکھ 97 ہزار 600 روپے کی مجموعی رقم جمع کرکے زیادہ نقصان برداشت کیا جائے۔ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے بینکنگ محتسب کے اس حکمنامہ کے خلاف مسلم کمرشل بینک کی اپیل کا جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ اپنے صارفین کے مفادات کا تحفظ بینک کی اولین ذمہ داری ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ بینک کو الیکٹرانک فنڈ ٹرانسفر کی سہولت بطور ڈیفالٹ فعال کرنے سے پہلے صارف کو اس سے متعلق آگاہی دینی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ بینکنگ محتسب کے حکمنامہ کو تبدیل کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے جس نے بینک کو شکایت کنندہ کے دعوے کے خلاف دفاع اور اس کی مخالفت کرنے کا پورا موقع فراہم کیا، اس کے باوجود بینک قانون کے مطابق اپنے ذمہ واجبات کی ادائیگی میں ناکام رہا۔ انہوں نے کہا کہ ڈیجیٹل بینکنگ مقبول ہو چکا ہے تاہم بینکوں کو اپنے صارفین کو یہ سمجھانا یقینی بنانا ہو گا کہ وہ فراڈ سے کس طرح بچ سکتے ہیں۔ ہمیں پاکستانی عوام بینکنگ صارفین کے مفادات کا تحفظ کرنا چاہئے جنہیں ایسی مصنوعات فروخت کی گئیں جو کہ ان کی محنت سے کمائی جانے والی رقم لوٹنے کیلئے استعمال ہوئی۔ صدر مملکت نے کسی بھی میرٹ سے مبرا ہونے پر بینک کی اپیل مسترد کرتے ہوئے شکایت کنندہ کے حق میں فیصلہ دیا جو اپنے اکائونٹ سے دھوکہ دہی سے منتقل کی گئی رقم کی واپسی کا خواہاں ہے۔