اقتدار میں آئے تو ملک دیوالیہ ہونے کے قریب تھا، تحریک انصاف نے معیشت کو ترقی کی راہ پر ڈال دیا
وزیر اعظم کاحکومت کے تین سال مکمل ہونے پر اپنی پارٹی کی کارکردگی کے حوالے سے تقریب سے خطاب

َّاسلا م آباد (ویب ڈیسک)

وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ دنیا میں آج تک کسی نے ناکام ہوئے بغیر بڑا کام نہیں کیا، جب تک آپ مشکل جدوجہد سے نہیں گزرتے، اس وقت تک آپ بڑا کام نہیں کر سکتے  ۔جانے والے حکمران بیس ارب ڈالر کا خسارہ چھوڑ کر گئے، اقتدار میں آئے تو ملک دیوالیہ ہونے کے قریب تھا، تحریک انصاف نے معیشت کو ترقی کی راہ پر ڈال دیا، آج خسارہ ایک اعشارہ آٹھ ڈالر کی سطح پر آگیا، تبدیلی کا راستہ انتہائی کٹھن،کامیابی کا شارٹ کٹ ہے نہ ہی کوئی پرچی پکڑ کر لیڈر بن سکتا ہے۔

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے تین سال مکمل ہونے پر اپنی پارٹی کی کارکردگی کے حوالے سے اسلام آباد کے جناح کنونشن سینٹر میں خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے اراکین اسمبلی، پارٹی کے اراکین اور یوتھ ونگ اور آزاد جموں و کشمیر کے نئے وزیراعظم سمیت سب کا شکریہ ادا کیا۔ان کا کہنا تھا کہ میری اقتدار میں آنے سے قبل 22سالہ جدوجہد بہت سخت تھی، ایسے وقت بھی آئے جب صرف پانچ سے چھ لوگ ساتھ رہ گئے تھے اور باقی لوگ گھروں میں بیٹھ گئے تھے۔انہوں نے کہا کہ اس برے وقت میں کئی لوگ مذاق اڑاتے تھے، میرے کئی لوگ کہا کرتے تھے کہ ہمارا مذاق اڑایا جاتا ہے کہ تم تحریک انصاف میں ہو۔عمران خان نے کہا کہ میرے لیے ان مشکل دنوں میں سب سے بڑی تحریک نبی اکرمۖ تھے، انہوں نے بھی بہت مشکل وقت گزارا، اللہ کے سب سے محبوب تھے لیکن 13سال وہ انتہائی مشکل وقت سے گزرے، انہیں اس مشکل وقت سے گزرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی لیکن جب وہ رائے حق پر آئے تو لوگوں نے ان کا مذاق اڑایا ارو میں ہمیشہ ان کی زندگی سے سیکھتا تھا۔انہوں نے کہا کہ مشکل وقت میں ہمیں گھبرانا نہیں چاہیے، اگر ہم مشکل وقت کو سمجھ لیں اور اس کا تجزیہ کر لیں تو وہی آپ کے عروج کا راستہ بن جاتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ دنیا میں آج تک کسی نے بڑا کام نہیں کیا جو فیل نہیں ہوا، یہ ناممکن ہے آپ سیدھا پرچی پکڑ کر لیڈ بن جائیں، ایسے نہیں ہو سکتا، جب تک آپ مشکل جدوجہد سے نہیں گزرتے، اس وقت تک آپ بڑا کام نہیں کر سکتے، کوئی بھی شارٹ کٹ لے کر لیڈر نہیں بنا۔انہوں نے کہا کہ ہمارے تین سال بہت مشکل گزرے کیونکہ جب ہم نے حکومت سنبھالی تو یہ ملک کا دیوالیہ کر کے چلے گئے، ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر اور قرض کی ادائیگی کے لیے پیسے ہی نہیں تھے، ادئایگیوں کے حوالے سے دیوالیہ ہو رہے تھے کیونکہ ہمارے پاس زرمبادلہ کے ذخائر ہی نہیں تھے۔ان کا کہنا تھا کہ ہمارا کرنٹ اکاونٹ خسارہ ملکی تاریخ کا سب سے بڑا 20ارب ڈالر تھا اس کی وجہ سے اگر سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور چین ہماری مدد نہ کرتے تو ہماری قوم جس مشکل وقت سے گزری وہ کچھ بھی نہیں کیونکہ روپیہ بہت بری طرح نیچے آتا۔وزیر اعظم نے کہا کہ ہمیں مجبورا آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑا کیونکہ ہمارے پاس پیسے ہی نہیں تھے، پیسے لینے کے لیے انہوں نے شرائط عائد کردیں کہ بجلی مہنگی کرنی پڑے، روپے کی قدر گرانی پڑے گی، ٹیکس لگانے پڑیں گے اور جب ہم ان شرائط پر چلتے ہیں تو عوام کو مشکلات ہوتی ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہم ان مشکلات سے نکل ہی رہے تھے کہ کورونا آ گیا، کورونا سے پہلے پلوامہ آ گیا لیکن اس معاملے میں اللہ نے ہمیں کامیابی دی اور میں خاص طور پر فوج کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ ہمارے پاس ایسے فوج اور فضائیہ ہے۔انہوں نے کہا کہ جس وقت بھارت نے ہمارے ملک میں رات گئے آ کر بمباری کی تو مجھے احساس ہوا کہ اگر ہمارے پاس اس طرح کی فوج نہ ہو تو ہم سات گنا زیادہ بڑے ملک کے سامنے کیا کرتے، ایسے میں ہمیں اپنی فوج کی اہمیت کا احساس ہوتا ہے۔اس موقع پر انہوں نے اپوزیشن جماعتوں کی جانب فوج کے خلاف بیانات کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ ماضی میں میں نے بھی فوج پر تنقید کی ہے، کوئی بھی ادارہ غلطیاں کر سکتا ہے، عدلیہ، فوج اور ہم سیاستدان بھی غلطیاں کرتے ہیں لیکن اس کا یہ مقصد نہیں کہ آپ اپنی فوج کو برا بھلا کہنا شروع کردیں اور ان کے پیچھے پڑ جائیں۔انہوں نے کہا کہ یہ فوج کے پیچھے اس لیے پڑے ہیں کیونکہ آپ چاہ رہے ہیں کہ فوج کسی طرح حکومت گرادے، یہ خود کو جمہوری قوت کہتے ہیں اور فوج کے پیچھے پڑے ہیں کہ جمہوری حکومت کو گرا دیں۔ان کا کہنا تھا کہ جب پلوامہ ہوا تو مجھے اپنی فوج کی اہمیت کا اندازہ ہوا اور اسی لیے ہم نے نریندر مودی کو کہا کہ اگر تم نے کچھ کیا تو ہم تمہیں منہ توڑ جواب دیں گے۔عمران خان نے کہا کہ پھر کورونا آ گیا، لوگوں کو اندازہ نہیں ہے ہک یہ ہمارے لیے کس قدر مشکل وقت تھا، مشکل وقت اس لیے تھا کہ ہم سے 30 سے 40 گنا بڑی جی ڈی پی کے حامل یورپی ممالک نے لاک ڈاون کردیا اور پھر بھارت میں نریندر مودی نے بھی لاک ڈاون لگا دیا کیونکہ یہ درست ہے کہ لاک ڈاون سے وبا پھیلتی کم ہے۔انہوں نے کہا کہ ہمیں اس موقع پر ان لوگوں کا سوچنا تھا جو یومیہ کماتے تھے اور ہماری اپوزیشن جماعتوں نے تنقید شروع کردی جبکہ ہسپتال بھرنے پر ہماری جماعت کے بھی کچھ لوگ گھبرا گئے لیکن ہم نے مشکل فیصلہ کیا کہ چاہے کچھ بھی ہو جائے، ہم پورا لاک ڈاون نہیں کریں گے کیونکہ ہمارے غریب بھوکے مر جائیں گے اور میرا ایمان ہے کہ اس کی برکت سے اللہ نے ہمیں بچا لیا۔ان کا کہنا تھا کہ کورونا کے لیے بہترین اقدمات پر ورلڈ اکنامک فورم، عالمی ادارہ صحت اور اکنامکس نے ہماری مثال دی اور اگر ہم غلط فیصلہ کر لیتے تو یہاں لوگ بھوکے مرتے جو آج ہندوستان میں ہو رہا ہے۔وزیر اعظم نے اپنی حکومت کے تین سالہ دور کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ جب ہم آئے تھے تو کرنٹ اکاونٹ کو 20ارب ڈالر کا خسارہ تھا اور آج یہ خسارہ 1.8ارب ڈالر رہ گیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ جب ہم آئے تھے تو ہمارے غیرملکی زرمبادلہ کے کل ذخائر 16.4 ارب ڈالر تھے اور آج ہمارے 27ارب ڈالر کے ذخائر ہیں۔انہوں نے کہا کہ جب ہم آئے تو 3ہزار 800ارب ٹیکس اکٹھا کیا جاتا تھا اور آج 4ہزار 700ارب ٹیکس اکٹھا کیا جا رہا ہوں، یہ جو اعدادوشمار میں آپ کو بتا رہا ہوں وہ اسحاق ڈار کے نہیں بلکہ اصل ہیں۔انہوں نے ایک مرتبہ پھر بیرون ملک پاکستانیوں کو ملک کا سب سے بڑا اثاثہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ جب ہم آئے تو ترسیلات زر 19.9ارب ڈالر تھیں اور آج ہماری ترسیلات زر 29.4ارب ڈالر پر پہنچ گئی ہیں۔عمران خان نے کہا کہ ہماری صنعت میں 18فیصد سے زائد اضافہ ہوا اور یہ دس سال بعد ہماری صنعت اتنی تیزی سے اوپر جا رہی ہے جبکہ تعمیرات کے شعبے میں سیمنٹ کی 42فیصد فروخت بڑھی ہے، زراعت میں 1100ارب اضافی کسانوں کے پاس گیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ہماری موٹر سائیکلیں ریکارڈ تعداد میں بکیں، ریکارڈ ٹریکٹر فروخت ہوئے جبکہ گاڑیوں کی فروخت 85فیصد بڑھ گئی اور ٹویوٹا نے اپنی تاریخ میں اتنی گاڑیاں نہیں فروخت کیں جتنی آج بیچی ہیں۔انہوں نے کہا کہ پنجاب کی اینٹی کرپشن نے مسلم لیگ(ن) کے 10سالوں میں کل ڈھائی ارب روپے برآمد کیے تھے جبکہ ہمارے تین سالوں میں اسی ادارے نے ساڑھے چار سو ارب روپے برآمد کر چکے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ہمارے آ نے سے پہلے نیب نے 18سالوں میں 290ارب روپے برآمد کیے تھے جبکہ ہمارے 3سالوں میں 519 ارب روپے برآمد کر چکے ہیں۔وزیر اعظم نے کہا کہ ہمارے احساس پروگرام سے قبل 11ارب روپے نچلے طبقے کی مدد کے لیے دیا جاتا تھا اور ہم یہ رقم بڑھا کر 260 ارب روپے پر لے گئے۔انہوں نے کہا کہ کورونا کے دنوں میں ہم نے احساس پروگرام کے تحت جو پیسہ خرچ کیا تو عالمی بینک نے اس پروگرام کی بدولت ساری دنیا میں پاکستان تیسرے نمبر پر تھا کیونکہ ہم نے انتہائی شفاف اور بہترین طریقے سے پیسے بانٹے۔ان کا کہنا تھا کہ احساس کے ساتھ ہمارا سب سے بڑا پروگرام ‘کامیاب پاکستان پروگرام’ ہے جس کے تحت ہم 40 لاکھ غریب خاندانوں میں سے ہر فرد کو بلاسود قرضے فراہم کریں گے، ایک فرد کو ٹیکنیکل ایجوکیشن فراہم کریں گے، ہیلتھ انشورنس دیں گے۔ وزیراعظمنے کہ صوبہ خیبر پختونخوا میں ہیلتھ کارڈ دیے جا چکے ہیں جبکہ پنجاب میں بھی اس سال ہو جائے گا، یہ کام صوبوں کی سطح پر ہو رہا ہے لہذا جب سب جگہ یہ کام ہو جائے گا تو صوبہ سندھ پر بھی دبا وپڑے گا اور انہیں بھی ہیلتھ کارڈ دینے پڑیں گے۔عمران خان نے کہا کہ غریبوں کو اقساط پر سستے گھر لے کر دیں گے یعنی انہیں کرائے کی جگہ گھر کی قسط دینی ہو گی اور وہ گھر کے مالک بن جائیں گے جبکہ کسانوں کو کسان کارڈ دیے جائیں گے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان میں 10 ڈیم بن رہے ہیں جو اگلے 10سال میں مکمل ہو جائیں گے، 2025 میں مہمنڈ ڈیم بن جائے گی، اس کے بعد داسو ڈیم بھی بن جائے گا اور 50سال میں پہلی بار ہم نے پانی کے ریزروائر بنانے کی کوشش کی ہے تاکہ کسانوں کو پانی مل جائے۔اس موقع پر انہوں نے پورے ملک میں یکساں نصاب پر محکمہ تعلیم کو سراہتے ہوئے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ اس ملک میں سب کو یکساں مواقع میسر آئیں اور آئندہ چند ماہ میں آٹھویں، نویں اور دسویں جماعت کے لیے سیرت النبیۖ کا خصوصی کورس شروع کررہے ہیں کیونکہ آج اس کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ موبائل فون کی وجہ سے جنسی جرائم اور بچوں سے زیادتی جیسے واقعات رونما ہو رہے ہیں اور مینار پاکستان جیسا واقعہ بحیثیت قوم ہمارے لیے اس سے زیادہ شرمناک چیز نہیں ہو سکتی لہذا ہمیں اپنے بچوں کی کردار سازی کی ضرورت ہے۔انہوں  نے کہا، ملک کا سب سے بڑا مسئلہ قانون کی حکمرانی ہے، آصف زرداری جیل سے حکومت اور حکومت سے جیل میں جاتے رہے۔ جب وہ طاقتور تھے تو ملک کا قانون انہیں نہیں پکڑ سکتا تھا۔ان کا کہنا تھا کہ، ریاست مدینہ میں مشکل حالات تھے، مگر قانون کی بالادستی قائم کی گئی، کوئی قانون سے اوپر نہیں، ہر مہذب معاشرے کا یہی بنیادی اصول ہے، ملک تب تباہ ہوتا ہے جب اس کے طاقتور لوگ چوری شروع کردیں، ترقی پذیر ممالک کے طاقتور لوگ قانون سے اوپر ہوتے ہیں۔ غریب ممالک سے ہر سال ایک ہزار ارب چوری ہو کر امیر ممالک میں جاتا ہے۔ مغلوں کے دور میں برصغیر کا جی ڈی پی 24 فیصد تھا، مغل دور میں بنگال امیر ترین صوبہ تھا، جب انگریز برصغیر سے گئے تو جی ڈی پی 3 فیصد رہ گیا۔ بنگال غریب ترین صوبہ بن گیا کہ انگریز سب دولت لوٹ کر لے گیا تھا۔عمران خان مزید بولے کہ، ملک سے 10 ارب ڈالر سالانہ چوری روک دیں آئی ایم ایف کے پاس ہی نہ جانا پڑے۔وزیراعظم نے کہا، میں آج کل افغانستان پر ہونے والے مغرب کے ٹی وی پروگرام دیکھتا ہوں، وہاں بڑا شور ہے افغانستان کی خواتین کے حقوق کے لیے۔ کبھی کسی نے باہر سے آکر خواتین کو حقوق دلوائے ہیں، خواتین نے اپنے حقوق خود لینے ہیں، ہم نے انہیں صرف تعلیم دلانی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ، پسماندہ علاقوں کے لئے خصوصی پیکجز دیئے گئے، بلوچستان اور سندھ میں ہماری حکومت نہیں لیکن پھر بھی 1300 ارب روپے دیئے۔