گستاخانہ مواد کی تشہیر کا معاملہ او آئی سی کے اجلاس میں اٹھانے کے لئے وفاقی سیکریٹریز کو خط
اعلیٰ عدلیہ نے سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد کی تشہیر کا معاملہ او آئی سی کے اجلاس میں اٹھانے کے لئے واضح احکامات دے رکھے ہیں
وفاقی سیکریٹری خارجہ،داخلہ اور آئی ٹی آئینی و قانونی طور پر پابند ہیں کہ وہ اس حوالے سے اقدامات کریں۔بصورت دیگر وہ توہین عدالت کے مرتکب ہوں گے۔خط کا متن

اسلام آباد  (ویب نیوز )

تحریک تحفظ ناموس رسالت ﷺ پاکستان نے وفاقی وزارت خارجہ،وفاقی سیکریٹری داخلہ اور وفاقی سیکریٹری آئی ٹی سے خط کے ذریعے مطالبہ کیا ہے کہ اعلیٰ عدلیہ کے احکامات کی روشنی میں سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد کی تشہیر کا معاملہ 22مارچ کو او آئی سی کے اجلاس میں اٹھایا جائے۔اسلام آباد ہائیکورٹ نے اس متعلق پٹیشن مذکورہ وفاقی سیکریٹریز کو بھیجتے ہوئے حکم دیا ہے کہ وہ اس معاملے کو دیکھیں۔اب مذکورہ وفاقی سیکریٹریز آئینی و قانونی طور پر پابند ہیں کہ وہ سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد کی تشہیری مہم کا معاملہ 22مارچ کو منعقد ہونے والے او آئی سی اجلاس میں بھرپور طریقے سے اٹھانے کے لئے اقدامات کرے۔بصورت دیگر وفاقی سیکریٹری خارجہ،وفاقی سیکریٹری داخلہ اور وفاقی سیکریٹری آئی ٹی توہین عدالت کے مرتکب ہوں گے۔تفصیلات کے مطابق تحریک تحفظ ناموس رسالت ﷺ پاکستان سوشل میڈیا پر جاری بدترین گستاخانہ مواد کی تشہیری مہم کا معاملہ 22مارچ کو اسلام آباد میں منعقد ہونے والے او آئی سی کے اجلاس میں اٹھانے کے لئے متحرک ہے۔اس حوالے سے آج(بدھ کو)تحریک تحفظ ناموس رسالت ﷺ پاکستان کے جنرل سیکریٹری نے وفاقی سیکریٹری خارجہ،وفاقی سیکریٹری داخلہ اور وفاقی سیکریٹری آئی ٹی کو ایک خط لکھا ہے۔خط میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ”سوشل میڈیا پر گزشتہ تقریباََ چھ سالوں سے مقدس ہستیوں اور شعائر اسلام کی توہین پر مبنی بدترین گستاخانہ مواد کی تشہیری مہم جاری ہے۔جس سے ہماری نوجوان نسل متاثر ہورہی ہے۔مذکورہ گستاخانہ مواد کی تشہیری مہم میں ملوث کئی مجرمان کو ایف آئی اے نے گرفتار کیا مگر سوشل میڈیا پر جاری مذکورہ گستاخانہ مواد کی تشہیری مہم کا سدباب نہیں ہوسکا بلکہ ہر گزرتے دن کے ساتھ گستاخانہ مواد کی تشہیری مہم میں شدت آرہی ہے۔وفاقی حکومت اور متعلقہ اداروں کے نمائندے اعلیٰ عدلیہ کے روبرو بیان دے چکے ہیں کہ پاکستان سوشل میڈیا پر جاری گستاخانہ مواد کی تشہیری مہم کا سدباب نہیں کرسکتا۔اس لئے کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے دفاتر امریکہ و یورپ میں ہیں اور وہ اسے اظہار رائے کی آزادی کے زمرے میں سمجھتے ہیں۔وفاقی حکومت اور متعلقہ اداروں کے نمائندے اعلیٰ عدلیہ کے روبرو یہ بھی بیان دے چکے ہیں کہ سوشل میڈیا پر جاری گستاخانہ مواد کی تشہیری مہم کا سدباب اس وقت تک ممکن نہیں،جب تک تمام اسلامی ممالک اس حوالے سے کوئی مشترکہ موقف اور مشترکہ لائحہ عمل اختیار نہ کریں۔اس صورتحال میں اسلام آباد ہائیکورٹ اور لاہور ہائیکورٹ نے اپنے فیصلوں میں وفاقی حکومت کو سوشل میڈیا پر جاری گستاخانہ مواد کی تشہیری مہم کے خلاف نہ صرف عالمی سطح پر اقدامات کرنے کا حکم دیا بلکہ مذکورہ معاملے کو او آئی سی کے اجلاس میں اٹھانے کے متعلق بھی واضح احکامات جاری کررکھے ہیں۔مگر افسوس کہ آج تک وفاقی حکومت نے اعلیٰ عدلیہ کے ان فیصلوں پر عمل درآمد نہیں کیا“۔خط میں مزید کہا گیا ہے کہ ”تحریک تحفظ ناموس رسالت ﷺ پاکستان نے اعلیٰ عدلیہ کے احکامات کی روشنی میں سوشل میڈیا پر جاری گستاخانہ مواد کی تشہیری مہم کا معاملہ 22مارچ کو اسلام آباد میں منعقد ہونے والے او آئی سی وزرائے خارجہ کونسل کے اجلاس میں اٹھانے کے لئے اسلام اآباد ہائیکورٹ میں رٹ پٹیشن دائر کی تھی۔اسلام آباد ہائیکورٹ کے فاضل جسٹس محسن اختر کیانی نے مذکورہ رٹ پٹیشن دس مارچ کو اپنے حکم نامہ کے ذریعے وفاقی سیکریٹری خارجہ،وفاقی سیکریٹری داخلہ اور وفاقی سیکریٹری آئی ٹی کو بھیجتے ہوئے حکم جاری کیا تھا کہ وہ اس معاملے کو دیکھیں۔اب وفاقی سیکریٹری خارجہ،وفاقی سیکریٹری داخلہ اور وفاقی سیکریٹری آئی ٹی کے علم میں آچکا ہے کہ اعلیٰ عدلیہ نے مذکورہ معاملہ او آئی سی کے اجلاس میں اٹھانے کا حکم دے رکھا ہے۔مذکورہ وفاقی سیکریٹریز اب اس بات کے آئینی و قانونی طور پر پابند ہیں کہ وہ مذکورہ معاملہ او آئی سی کے اجلاس میں بھرپور طریقے سے اٹھانے کے لئے اقدامات کریں۔اگر وفاقی حکومت نے مذکورہ معاملہ 22مارچ کو اسلام آباد میں منعقد ہونے والے او آئی سی وزرائے خارجہ کونسل کے اجلاس میں نہ اٹھایا تو مذکورہ وفاقی سیکریٹریز توہین عدالت کے مرتکب ہوں گے“۔خط میں استدعا کی گئی ہے کہ وفاقی حکومت اعلیٰ عدلیہ کے احکامات کی روشنی میں سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد کی تشہیری مہم کا معاملہ 22مارچ کو اسلام آباد میں منعقد ہونے والے او آئی سی وزرائے خارجہ کونسل کے اجلاس میں اٹھائے۔خط کے ساتھ اعلیٰ عدلیہ کے احکامات کی کاپی بھی مذکورہ وفاقی سیکریٹریز کو ارسال کی گئی ہے۔