ایسے جواب کی توقع نہیں تھی، عمران خان کے کافی فالوورز ہیں، ان کے پائے کے لیڈر کو ہر لفظ سوچ سمجھ کر ادا کرنا چاہیے، چیف جسٹس کے ریمارکس
ہم توہین عدالت کی کارروائی کو غلط طور پراستعمال نہیں ہونے دیں گے، اس میں آزادی اظہار رائے کا بھی معاملہ ہے
معاملے کی سنگینی کو سمجھیں، دانیال عزیز، طلال چوہدری اور نہال ہاشمی کیسز میں سپریم کورٹ کے فیصلے دیکھ لیں،چیف جسٹس اطہرمن اللہ
توہین عدالت کی کارروائی آج ختم ہوسکتی تھی مگر اس جواب کے باعث ایسا نہیں ہوا،جسٹس میاں گل حسن،کیس کی سماعت 8 ستمبر تک ملتوی
اسلام آباد (ویب نیوز)
توہین عدالت کیس میں اسلام آباد ہائیکورٹ نے چیئرمین پاکستان تحریک انصاف اور سابق وزیراعظم عمران خان کو 7 دن میں دوبارہ تحریری جواب جمع کرانے کا حکم دے دیا۔ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہر من اللہ کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے بدھ کے روز توہین عدالت کیس کی سماعت کی، چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان عدالتی طلبی پر خود پیش ہوئے۔عمران خان کے وکیل حامد خان روسٹرم پر آئے تو چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے ریمارکس دئیے کہ آپ عمران خان کے وکیل کے ساتھ اس کورٹ کے معاون بھی ہیں، آپ نے جو تحریری جواب جمع کرایا اس کی توقع نہیں تھی، یہ کورٹ توقع کرتی تھی آپ ادھر آنے سے پہلے عدلیہ کا اعتماد بڑھائیں گے۔جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ایک سیاسی جماعت کو قانون اور آئین کی حکمرانی پر یقین رکھنا چاہیے، تحریری جواب سے مجھے ذاتی طور پر دکھ ہوا، ماتحت عدلیہ جن حالات میں کام کررہی ہے سب کے سامنے ہے۔ چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے مزید کہا کہ عمران خان کی کافی فین فالوونگ ہے، عمران خان کے پائے کے لیڈر کو ہر لفظ سوچ سمجھ کر ادا کرنا چاہیے، میں توقع کر رہا تھا کہ احساس ہوگا کہ غلطی ہوگئی، جس طرح گزرا ہوا وقت واپس نہیں آتا اسی طرح زبان سے نکلی بات بھی واپس نہیں جاتی۔جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آپ کو جوبھی لکھ کر دینا ہے سوچ سمجھ کر لکھیں، آپ اس معاملے کی سنگینی کا بھی اندازہ لگائیں۔ دوران سماعت جسٹس میاں گل حسن نے ریمارکس دیے کہ توہین عدالت کی کارروائی آج ختم ہوسکتی تھی مگر اس جواب کے باعث ایسا نہیں ہوا، آپ کو جواب داخل کرانے کا ایک اور موقع دیا گیا ہے، آپ اس پر سوچیں۔ حامد خان نے عدالت کو بتایا کہ پٹیشن 22 اگست کو نمٹائی گئی اور تقریر 20 اگست کو کی گئی، جس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ معاملہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں زیر التوا تھا تو تقریر کی گئی، آپ نے توہین عدالت معاملے پر فردوس عاشق اعوان والی ججمنٹ پڑھی ہو گی۔چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ پیکا آرڈیننس کے تحت اداروں پر تنقید کرنے والوں کو 6 ماہ ضمانت بھی نہیں ملنی تھی، اس عدالت نے پیکا آرڈیننس کو کالعدم قرار دیا تو عدالت کے خلاف مہم چلائی گئی، عدالت نے تنقید کی کبھی پرواہ نہیں کی۔ان کا کہنا تھا عمران خان نے کہا کہ عدالتیں 12 بجے کیوں کھلیں، یہ عدالت کسی بھی کمزور یا آئینی معاملے کے لیے 24 گھنٹے کھلی ہے، توہین عدالت کا معاملہ انتہائی سنگین ہے، جب زیر التوا معاملہ ہو اور انصاف کی فراہمی کا معاملہ ہو تو یہ بہت اہم ہے، عمران خان نے عوامی جلسہ میں کہا کہ عدالت رات 12 بجے کیوں کھلی،عدالت کو کسی کو بتانے کی ضرورت نہیں کہ وہ کیوں کھلی۔چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ عدالت ساری کارروائی کو شفاف انداز میں آگے بڑھائے گی، یہ کوئی پہلی بار نہیں، حامد خان صاحب، دانیال عزیز، نہال ہاشمی اور طلال چودھری کیس پڑھیں، یہ عدالت سپریم کورٹ کے فیصلوں کے خلاف نہیں جاسکتی، آپ معاملے کی سنگینی کوسمجھیں اور سوچ سمجھ کرجواب دیں۔ چیف جسٹس نے یہ بھی ریمارکس دیئے کہ عمران خان کو جوڈیشل کمپلیکس بنانے کا کریڈٹ ضرور جاتا ہے، جس ماتحت عدالت پر بات کی گئی وہ عام آدمی کی عدالت ہے۔ عام آدمی کو آج بھی ہائی کورٹ تک رسائی نہیں ملتی۔بعدازاں عدالت نے عمران خان کو 7 دن میں دوبارہ تحریری جواب دینے کا حکم دیا اور چیف جسٹس نے کہا کہ 7 دن میں سوچ سمجھ کرجواب داخل کریں اور کیس کی مزید سماعت 8 ستمبر تک ملتوی کردی۔2 صفحات پر مشتمل عبوری حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ عمران خان کا جواب غیر تسلی بخش ہے، اس لئے شوکاز نوٹس واپس نہیں لے رہے۔مدعا علیہ کے وکیل نے شوکاز نوٹس کا ضمنی جواب داخل کرنے کے لیے ایک ہفتے کی مہلت مانگی ہے۔ اس لئے انہیں حکم دیا جاتا ہے کہ 7 دن کے اندر ضمنی جواب داخل کیا جائے۔قبل ازیں عمران خان کی عدالت پیشی کے موقع پر سکیورٹی کے انتہائی سخت انتظامات کیے گئے تھے اور وکلا کے سوا کسی بھی شخص کو کمرہ عدالت میں جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔