- سری نگر میں اقوام متحدہ کے فوجی مبصر گروپ کے زیر استعمال10 کنال اراضی کو تجاوزات قرار دے دیا گیا
- سابق وزیر اعلی فاروق عبداللہ ، عمر عبداللہ سابق وزیر خزانہ حسیب درابو سمیت ہزاروں شہریوں کو بے دخلی کا نوٹس
- مقبوضہ کشمیر انتظامیہ نے تجاوزات کے نام پر اراضی کو واگزار کرانے کے لیے انسداد تجاوزات مہم تیز کر دی ہے
سری نگر (ویب نیوز)
بھارتی حکومت نے مقبوضہ کشمیر کے دارلحکومت سری نگر میں اقوام متحدہ کے دفتر کے زیر استعمال10 کنال اراضی کو تجاوزات قرار دے کر اراضی خالی کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ یاد رہے مقبوضہ کشمیر کی بھارتی انتظامیہ نے سابق وزیر اعلی فاروق عبداللہ ان کے بھائی مصطفے کمال، سابق وزیر اعلی ، عمر عبداللہ سابق وزیر خزانہ حسیب درابو سمیت ہزاروں شہریوں کو زمین کا ناجائز قابض قرار دے کر زمین سے بے دخلی کا نوٹس جاری کر رکھا ہے اور بے دخلی کی لیے انتظامیہ کارروائی کر رہی ہے گھر گرائے جارہے ہیں۔کئی سابق وزرا ، سابق ممبران اسمبلی سمیت ہزاروں عالم شہریوں کو5 اگست 2019 سے پہلے کے قانون جموں و کشمیر اسٹیٹ لینڈ ایکٹ کے تحت حاصل اراضی خالی کرنے کا نوٹس دیا گیاہے ۔۔مقبوضہ کشمیرمحکمہ مال کے کمشنر سیکریٹری وجے کمار بدھوری نے 20 اضلاع کے ڈپٹی کمشنرز سے جموں و کشمیر اسٹیٹ لینڈ ایکٹ کے تحت حاصل اراضی کو جنوری کے آخر تک ختم کرانے کا حکم جاری کر رکھا ہے ۔ عام شہریوں کا کہنا ہے کہ بھارتی حکومت کشمیریوں سے زمینیں چھین کر انہیں افلاس و تنگ دستی کے اندھیروں میں دھکیل رہی ہے۔ریاست کی آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنے کے خدشات صحیح ثابت ہو رہے ہیں۔ انتظامیہ نے اب تک آپریشن میں سینکڑوں کنال اراضی خالی کرالی گئی ہے ۔ آپریشن کے دوران لوگوں کے گھروں کو بھی مسلمار کر دیا گیا ہے ۔ ان افراد کوسرکاری اراضی پر ناجائز قابض قرار دے کرانہیں اراضی کو 31 جنوری 2023 سے پہلے حکومت کو واپس لوٹانے یا پھر قانونی کارروائی کے لیے تیار رہنے کے لیے نوٹس جاری کیے گئے ہیں۔ بھارتی اخبار کے مطابق جموں و کشمیر انتظامیہ نے ریاستی اراضی کو واگزار کرانے کے لیے انسداد تجاوزات مہم تیز کر دی ہے، سری نگر میںاقوام متحدہ کے فوجی مبصر گروپ(UNMOGIP) کے زیر استعمال 10 کنال اراضی، گورنر ہاس سمیت متعدد ہائی پروفائل جائیدادیں، سرکاری عمارتیں اور سرکاری رہائش گاہیں تجاوزات کی فہرست میں شامل ہو گئی ہیں، سپیشل سیکرٹری ریونیو ڈپارٹمنٹ جنگ بھادر نے بھارتی اخبار کو بتایا کہ وہ اراضی جو کسی بھی فرد یا ریاست کے محکمہ کے ذریعہ ریونیو ڈپارٹمنٹ کی اجازت کے بغیر استعمال کی جا رہی ہے، اسے "تجاوز اراضی” تصور کیا گیا ہے۔ سابق وزیر اعلی فاروق عبداللہ کی حکومت کے دوران 2001 میں جموں و کشمیر اسٹیٹ لینڈ قانون بنایا گیا تھا۔ اس قانون کے تحت شہریوں کے زیر استعمال اضافی اراضی کے مالکانہ حقوق دیے گئے تھے۔ اس طرح حکومت نے 25,000 کروڑ روپے کا ریونیو حاصل کیا تھا جو جموں کشمیر میں ہائیڈل پاور پراجیکٹس کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔ بھارتی اخبار کے مطابق جموں و کشمیر انتظامیہ نے ریاستی اراضی کو واگزار کرانے کے لیے انسداد تجاوزات مہم کے دوران اب تک ضلع اسلام آباد میں مجموعی طورپر40ہزارکنال سے زائد اراضی واگزار کرالی ہے جبکہ صرف گزشتہ تین دن میں لوگوں سے4200کنال سے زیادہ اراضی خالی کرائی گئی ہے۔