• کوٹلی کے متاثرہ بنڈلی گاوں کے لوگوں کو اب بھی کسی معجزے کا انتطار ہے

 

اسلام آباد (ویب نیوز)

آزاد کشمیر کے ضلع کوٹلی کے گاوں بنڈلی پر پچھلے تین دنوں سے عجیب سی یاسیت چھائی ہوئی ہے۔ ہر شخص ذہنی کشمکش میں مبتلا ہے۔ اس گاں کے باسیوں کو علم ہے کہ وہ ایک بڑے نقصان سے دو چار ہو چکے ہیں مگر اب بھی انہیں کسی معجزے کا انتطار ہے۔یہاں کے نوجوانوں کا ایک بڑا گروپ ممکنہ طور پر اس کشتی پر سوار تھا، جومنگل اور بدھ کی درمیانی شب یونانی سرحد کے قریب بحیرہ روم میں حادثے کا شکار ہو کر ڈوب گئی۔ نیوز پورٹل انڈپینڈنٹ اردو کے مطابق اس کشتی میں ممکنہ طور پر 750 کے قریب لوگ سوار تھے، جن میں ایک بڑی تعداد پاکستانی اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے شہریوں کی بھی تھی۔اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق اس حادثے میں مرنے والوں کی تعداد 78 ہے جبکہ 500 کے قریب لوگ اب بھی لاپتہ ہیں جن میں 50 سے 100 کے درمیان کم سن بچے بھی شامل ہیں۔یونانی کوسٹ کارڈ نے جن 104 لوگوں کو زندہ بچایا ہے، ان میں 12 پاکستانی شہری بھی ہیں۔ بنڈلی گاں کے دو نوجوان عدنان بشیر اور حسیب الرحمن بھی زندہ بچنے والوں میں شامل ہیں۔عدنان بشیر کی ایک مختصر ویڈیو بھی سامنے آئی ہے، جس میں انہیں یہ کہتے سنا جا سکتا ہے کہ کشتی پر ان کے ساتھ اس علاقے کے 30 کے لگ بھگ لوگ سوار تھے، جن کا اب کوئی علم نہیں۔برطانیہ میں مقیم کشمیری صحافی راجہ فریاد کا تعلق بھی ضلع کوٹلی سے ہے اوران کے کئی رشتے دار بھی ممکنہ طور پر اس کشتی میں سوار تھے۔ راجہ فریاد اس حادثے کے فورا بعد برطانیہ سے یونان پہنچے ہیں، جہاں ان کی اس حادثے میں بچ جانے والے اپنے بھانجے سے مختصر سی ملاقات ہوئی۔ راجہ فریاد نے بتایا: ایک تو وہ گہرے صدمے میں تھا، دوسرا انہوں (یونانی حکام) نے اسے زیادہ دیر بات نہیں کرنے دی اور اسے ساتھ لے گئے۔ بس وہ اتنا بتا سکا ہے کہ میرے ساتھ اپنے علاقے کے 30 کے قریب لوگ تھے، جن کا اب کوئی پتہ نہیں۔راجہ فریاد کے بقول لاپتہ لوگوں میں کئی ان کے قریبی رشتہ دار ہیں۔ایتھنز میں پاکستانی سفارت خانے کے مطابق سمندر سے جن 78 لوگوں کی لاشیں نکالی گئی ہیں، ان کی شناخت ڈی این اے کے بغیر ممکن نہیں، اس لیے ابھی تک ان کی شہریت کا تعین نہیں ہو سکا۔ایک پریس ریلیز کے ذریعے سفارت خانے نے لاپتہ پاکستانی شہریوں کے ورثا سے اپیل کی ہے کہ وہ لاپتہ افراد کے والدین یا بچوں کی ڈی این اے رپورٹ سفارت خانے کو ارسال کریں تاکہ شناخت کے ذریعے لاشوں کی واپسی کا بندوبست ہو سکے۔پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں حکام اس معاملے پر زیادہ معلومات نہیں رکھتے، تاہم اس حادثے کے بعد پولیس اور انتظامیہ بنڈلی گاں میں موجود ہے اور حادثے کا شکار ہونے والے لوگوں کے متعلق معلومات جمع کر رہی ہے۔کمشنر پونچھ ڈویژن چوہدری شوکت علی نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اس کشتی پر ضلع کوٹلی کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے 40 سے 50 لوگ موجود تھے۔ڈپٹی کمشنر کوٹلی نے اپنے ایک مکتوب میں 27 افراد کی ابتدائی فہرست جاری کی ہے، جن کے بارے میں امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ وہ اسی کشتی پر سوار تھے، تاہم لوگوں کی اصل تعداد معلوم کرنے کے لیے چھان بین جاری ہے۔ کمشنر میرپور کہتے ہیں کہ یہ لوگ مختلف ایجنٹوں کے ذریعے لیبیا تک قانونی طریقے سے سفر کر کے پہنچے اور پھر وہاں سے غیر قانونی طور پر یورپ جانے کی کوشش کے دوران حادثے کا شکار ہوئے۔چوہدری شوکت علی کے بقول: کوٹلی کے چار لوگوں کے زندہ بچنے کی اطلاعات ہیں جن کا اپنے ورثا سے رابطہ ہوا ہے۔ مرنے والوں کی شناخت اور لاپتہ افراد کی تصدیق کے لیے یونان میں پاکستانی سفارت خانے اور وزارت خارجہ کے ساتھ رابطے میں ہیں۔انہوں نے بتایا کہ حادثے کا شکار ہونے والے افراد کو لے جانے والے انسانی سمگلروں کا تعلق گجرات اور گجرانوالہ سے ہے، تاہم بنڈلی میں ایک مقامی صحافی نے تصدیق کی ہے کہ ان ایجنٹوں کے کئی آلہ کار بنڈلی گاں میں موجود ہیں۔ان کے مطابق پولیس نے ان میں سے چھ مبینہ ایجنٹوں کو تحویل میں لے کر ان سے پوچھ گچھ شروع کر دی ہے اور ان کے بیانات کی بنیاد پر 12 نامزد اور کئی نامعلوم افراد پر انسانی سمگلنگ میں ملوث ہونے کا مقدمہ درج کر لیا ہے۔بنڈلی گاں کے بعض مکینوں نے تصدیق کی ہے کہ انسانی سمگلروں کے مقامی آلہ کاروں میں ایک ایسا شخص بھی شامل ہے، جس کا اپنا بیٹا بھی حادثے کا شکار ہونے والی کشتی پر سوار تھا اور اس وقت لاپتہ ہے۔کوٹلی شہر سے لگ بھگ 32 کلو میٹر کے فاصلے پر کھوئی رٹہ تحصیل کی یونین کونسل بنڈلی کی آبادی لگ بھگ 10 ہزار ہے۔پہاڑوں کے درمیان واقع اس چھوٹی سی وادی میں چند سال پہلے تک اچھی خاصی کھیتی باڑی ہوا کرتی تھی مگر اب ان کھیتوں میں خود رو جھاڑیاں اور گھاس اگی ہوئی ہے۔اس قصبے کا شاید ہی کوئی گھر ہے جس کا ایک آدھ فرد بیرون ملک روزگار کے لیے نہ گیا ہو۔ زیادہ تر لوگ خلیجی ممالک میں محنت مزدوری کرتے ہیں اور ایک بڑی تعداد برطانیہ میں مقیم ہے۔پچھلے کچھ سالوں میں اس گاں کے نوجوانوں میں ایک نیا رجحان پیدا ہوا اور وہ ہے غیر قانونی طور پر یورپ میں داخل ہونا اور پھر وہاں سیاسی پناہ حاصل کرنا۔ مقامی زبان میں اس عمل کو ڈنکی مارنا کہتے ہیں۔بنڈلی گاں کے ایک سماجی کارکن عابد راجوروی نے بتایا کہ اب تک اس گاں کے چار سے پانچ سو نوجوان ڈنکی مار کر یورپ جا چکے ہیں، مگر ایسا پہلی مرتبہ ہوا کہ اس علاقے سے یورپ جانے والا کوئی شخص راستے میں حادثے کا شکار ہوا ہو۔عابد راجوروی کے بقول: گذشتہ پانچ سالوں کے دوران میرے کئی جاننے والے بلکہ قریبی رشتہ دار اسی طریقے سے یورپ جا چکے ہیں۔ کئی مرتبہ ایسا ہوا کہ وہ راستے میں کہیں پھنس گیے ہوں۔ سفر میں مشکلات کا سامنا کیا ہو۔ ایجنٹوں اور سمگلروں کے ہاتھوں بلیک میل ہوئے ہوں یا تشدد کا نشانہ بنے ہوں، مگر آج سے پہلے کبھی کوئی سمندری حادثے کا شکار نہیں ہوا۔لاپتہ افراد میں عابد راجوروی کے کم از کم پانچ قریبی رشتہ دار شامل ہیں۔عابد کے بقول یہ لوگ رواں سال مارچ کے درمیان میں یہاں سے راونہ ہوئے اور براستہ کراچی، دبئی سے ہوتے ہوئے لیبیا پہنچے۔انہوں نے بتایا: سات جون کو آخری بار میرا اپنے کزن سے رابطہ ہوا۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ بنڈلی گاوں کے ہم 30 لوگ اکٹھے ہیں اور ہماری کشتی آج روانہ ہو گی۔ اب ہمارا رابطہ اٹلی پہنچ کر ہی ہو گا۔عابد کے بقول اگلے سات دن ان کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں ہوا اور آٹھویں دن حادثے کی خبر آ گئی۔وہ کہتے ہیں کہ گاں کے ہر گھر میں سوگ ہے۔ ایک گھر تو ایسا ہے، جس کے چار لوگ اس کشتی پر سوار تھے۔ان کے مطابق: پچھلے چار دنوں سے ان گھروں میں کسی نے کچھ نہیں کھایا۔ سب ایک دوسرے کو دلاسہ دے رہے ہیں اور ایک دوسرے سے چھپ کر رو رہے ہیں۔ اب بس کسی معجزے کا ہی انتظار ہے۔