غزہ میں 50 اسرائیلی یرغمالیوں  کے بدلے اسرائیلی قید میں 300 فلسطینیوں کی رہائی کا امکان

 اسرائیل نے قیدیوں کے معاہدے کے حتمی مسودے کا جواب دینے کے لیے ڈیڈ لائن کی درخواست کر دی

اسرائیل کے ساتھ جنگ بندی کے معاہدے کے قریب آنے کے اعلان کے بعد تفصیلات سامنے آگئی ہیں

غزہ میں اسرائیل کارروائیاں جنگی جرائم ہیں ان جرائم کی تحقیقات ناگزیر ہیں ایمنسٹی انٹرنیشنل

قاہرہ،تل ابیب(  ویب   نیوز)

غزہ میں 50 اسرائیلی یرغمالیوں  کے بدلے اسرائیلی   قید میں 300 فلسطینیوں کی رہائی کا امکان پیدا ہو گیا ہے  ۔ العربیہ کے مطابق کے مطابق اسرائیل نے قیدیوں کے معاہدے کے حتمی مسودے کا جواب دینے کے لیے ڈیڈ لائن کی درخواست کی ہے، کیونکہ قیدیوں کی ڈیل کے حوالے سے باقی ماندہ نکات اس وقت حل کیے جا رہے ہیں جن میں قیدیوں کی رہائی اورانکی حوالگی کا طریقہ کار شامل ہے۔یہ بات حماس کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ جنگ بندی کے معاہدے کے قریب آنے کے اعلان کے بعد سامنے آئی ہے۔ معاہدے کی تفصیلات سامنے آنا شروع ہوگئی ہیں، جس میں مخصوص مدت کے لیے جنگ بندی، قیدیوں کا تبادلہ اور امداد کا داخلہ شامل ہے۔ العربیہ کے مطابق  معاہدے میں 5 دن کے لیے جنگ بندی اور تقریبا 300 فلسطینی اسیران کے بدلے تقریبا 50 اسرائیلی قیدیوں کی رہائی شامل ہے۔ حماس تحریک نے "قطری بھائیوں اور ثالثوں کو اپنا جواب پہنچا دیا ہے۔ یہ کہ جنگ بندی کا معاہدہ ہونے کے قریب تھا۔منگل کو حماس کے ایک عہدیدار نے توقع ظاہر کی کہ قطری ثالث چند گھنٹوں کے اندر معاہدے کی تفصیلات کا اعلان کر دے گا، جو کہ جنگ بندی کے مذاکرات میں پیش رفت اور دونوں فریقوں کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کا اشارہ دے گا۔اسرائیلی براڈکاسٹنگ کارپوریشن نے پیر کو کہا کہ اسرائیلی حکومت نے حماس کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کو مکمل کرنے کے لیے گرین سگنل دے دیا ہے۔اس سے قبل مصری ذرائع نے انکشاف کیا تھا کہ مصری اور امریکی حکام کے درمیان غزہ کی پٹی میں جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے پر پہنچنے کے لیے بات چیت ہوئی تھی۔ذرائع نے قاہرہ نیوز چینل کو بتایا کہ دونوں فریقین کے درمیان بات چیت اس بات پر مرکوز رہی کہ کس طرح پرامن رہتے ہوئے قیدیوں کو رہا کیا جائے۔گذشتہ جمعرات کی شام حماس کے رہ نماوں کے ایک وفد نے قاہرہ میں مصری انٹیلی جنس کے ڈائریکٹر میجر جنرل عباس کامل سے ملاقات کی اور ان تفصیلات پر تبادلہ خیال کیا۔ العربیہ کے مطابق  حماس کے وفد نے غزہ کی پٹی میں فلسطینی عوام کے خلاف جاری اسرائیلی حملوں اور قتل عام کی جنگ پر تبادلہ خیال کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ توقع ہے کہ جنگ بندی ہو جائے گی اور امدادی قافلے غزہ کی پٹی میں داخل ہوں گے۔

انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل  نے  غزہ میں اسرائیل کارروائیوں کوجنگی جرائم قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ  غزہ  میںاسکولوں اور اسپتالوں میں شہریوں کو بغیر کسی وارننگ کے براہ راست بمباری سے نشانہ بنایا گیا، لیکن بین الاقوامی عدالتوں کے سامنے اسرائیل کے خلاف مقدمہ چلانا مشکل ہے۔ایمنسٹی انٹرنیشنل نے  سوموار کو جاری کردہ ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ اس بات کے شواہد موجود ہیں کہ اسرائیل نے غزہ میں "جنگی جرائم” کا ارتکاب کیا جس کے نتیجے میں 46 نہتے اور بے گناہ فلسطینی شہری مارے گئے۔ تنظیم نے ان جرائم کی اعلی سطحی تحقیقات کی ضرورت پر زور دیا۔ایمنسٹی نے کہا کہ اس نے جنگی قوانین کی خلاف ورزیوں کے سلسلے میں جاری تحقیقات کے ایک حصے کے طور پر، دو کیسز کو دستاویزی شکل دی ہے جو غزہ میں اسرائیلی طرز عمل کی ایک مثال سمجھے جا سکتے ہیں، جن میں اسرائیلی بمباری میں 20 بچوں سمیت 46 شہری ہلاک ہوئے۔ ان میں ایک 80 سالہ خاتون جب کہ تین ماہ کی عمر کے بچے شامل تھے۔انسانی حقوق گروپ نے وضاحت کی کہ دو حملے جو 19 اور 20 اکتوبر کو ہوئے میں سے ایک کے دوران چرچ کی عمارت کو نشانہ بنایا جہاں سیکڑوں بے گھر شہری غزہ شہر میں پناہ لیے ہوئے تھے۔ اس کے علاوہ اسرائیلی فوج نے وسطی غزہ کی پٹی میں نصیرات پناہ گزین کیمپ کے ایک گھر کو نشانہ بنایا۔انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کے ایک عہدیدار نے کہا ہے کہ اس نے غزہ میں اسرائیل کی جانب سے "جنگی جرائم” کے ارتکاب کے نئے شواہد کی نگرانی کی ہے سامی عبدالمنعم نے  پیر کو عرب ورلڈ نیوز ایجنسی (AWP) کو دیے گئے انٹرویو میں مزید کہا کہ انسانی حقوق کے دفاع سے وابستہ تنظیم نے "متاثرین سے ان پناہ گاہوں پر بمباری کے حوالے سے مدد مانگی تھی جس میں وہ بغیر کسی وارننگ کے بمباری کا شکار ہوگئے۔عبدالمنعم نے کہ کہ "بدقسمتی سے اسرائیل بین الاقوامی فوجداری عدالت کو ریگولیٹ کرنے والے کنونشن پر دستخط کرنے والا ملک نہیں ہے اس لیے اس پر مقدمہ چلانا مشکل ہے”۔انہوں نے کہا کہ جنگوں میں اسرائیل کی تاریخ گواہی دیتی ہے کہ اس نے کبھی بھی جنگ کے دوران بین الاقوامی قانون میں طے شدہ اصولوں کا احترام نہیں کیا۔ عبادت گاہوں، اسکولوں، ہسپتالوں، یا ایسی جگہوں کا احترام نہیں کیا گیا جہاں عام اور بے گناہ شہری پناہ لے سکتے ہیں۔خیال رہے کہ غزہ کی پٹی پر سات اکتوبر سے جاری اسرائیلی فوجی کارروائی میں بڑے پیمانے پر قتل عام اور خون خرابہ جاری ہے۔اسرائیلی فوج کی جانب سے طاقت کے اندھا دھند استعمال کے نتیجے میں تیرہ ہزار سے زائد فلسطینی شہید اوراکتیس ہزار سے زائد زخمی ہوچکے ہیں۔

عرب اسلامی وزارتی کمیٹی غزہ کی صورتِ حال پر بات چیت کے لیے ماسکو پہنچ گئی ہے۔سعودی عرب، مصر، اردن، فلسطینی اتھارٹی اور انڈونیشیا کے وزرائے خارجہ پر مشتمل کمیٹی کے ارکان  برطانیہ اور فرانس کا دورہ بھی کریں گے جبکہ کمیٹی کا دورہ چین مکمل ہو گیا  ہے۔ کمیٹی کے ارکان برطانیہ اور فرانس کے دوروں کے دوران برطانوی وزیر اعظم رشی سوناک اور فرانسیسی صدر ایمانوئیل میکرون سے ملاقاتیں کریں گے ۔ ترک وزیر خارجہ ہاکان فیدان نے بیجنگ اور ماسکو کا دورہ نہیں کیا کیونکہ ترک صدر رجب طیب اردوان الجزائر کے دورے پر ہیں۔ہاکان فیدان نے الجزیرہ کو بتایا کہ مسلم ممالک نے فیصلہ کیا ہے کہ تمام سفارتی اور انسانی ہمدردی کے طریقہ کار کا استعمال کرتے ہوئے غزہ میں جنگ بندی کرانے کی کوشش کریں گے، مزید کہا کہ اسرائیل کو حملوں کو لازمی روکنا چاہیے۔ ادھر سعودی پریس ایجنسی کے مطابق غیر معمولی مشترکہ اسلامی عرب سربراہی اجلاس کی طرف سے تفویض کردہ وزارتی کمیٹی نے پیر کو بیجنگ میں چین کے نائب صدر ہان ژینگ سے ملاقات کی۔اجلاس میں شریک کمیٹی کے ارکان میں سعودی عرب، اردن، مصر، فلسطین اور انڈونیشیا کے وزرائے خارجہ اور اسلامی تعاون تنظیم کے سربراہ شامل تھے۔ہان ژینگ نے 11 نومبر کو ریاض میں منعقدہ سربراہی اجلاس کی کاوشوں اور اس کے نتیجے میں ہونے والے فیصلوں کو سراہا جن کا مقصد غزہ میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کو کم کرنا، شہریوں کی حفاظت اور امن کی کوششوں کو بحال کرنا ہے۔انہوں نے کمیٹی کی کوششوں کے لیے چین کی حمایت پر بھی زور دیا۔نائب صدر نے کہا کہ چین غزہ میں جنگ بندی پر زور دینے، شہریوں کی حفاظت، پٹی میں انسانی امداد کی اجازت دینے اور مسئلہ فلسطین کا منصفانہ حل تلاش کرنے کے لیے کام کر رہا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ چین غزہ کی پٹی میں جنگ بندی کے حصول اور جلد از جلد امن کو یقینی بنانے کے لیے عرب اور مسلم ممالک کے ساتھ ہم آہنگی اور کام کرنے کا خواہاں ہے۔کمیٹی کے ارکان نے غزہ کی پٹی کے بحران کے حوالے سے چین کے مقف کی تعریف کی جو ان کے بقول مسلم اور عرب ممالک کے موقف سے مطابقت رکھتا ہے۔انہوں نے غزہ کی پٹی میں جنگ بندی کے حصول کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں چین کے مثبت کردار کو بھی اجاگر کیا۔ملاقات میں غزہ میں فوری جنگ بندی تک پہنچنے اور نہتے شہریوں اور عبادت گاہوں، الشفا ہسپتال اور انڈونیشین ہسپتال سمیت اہم سہولیات کے مراکز کو اسرائیلی حملوں سے بچانے کی اہمیت پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔کمیٹی کے ارکان نے اسرائیلی فوجی کارروائیوں کو فوری طور پر روکنے، غزہ کی پٹی سے فلسطینیوں کی جبری نقل مکانی کو روکنے اور فوری انسانی امداد کے داخلے کے لیے محفوظ راہداریوں کو محفوظ بنانے کی اہمیت پر زور دیا۔انہوں نے فلسطینی عوام کے حقوق کی ضمانت اور مشرقی یروشلم کے دارالحکومت کے ساتھ ایک آزاد ریاست کے قیام کے لیے بین الاقوامی قراردادوں کے مطابق امن عمل کو بحال کرنے کی اہمیت کو بھی اجاگر کیا۔کمیٹی کے ارکان نے اسرائیل کی جانب سے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزیوں کو روکنے کے لیے عالمی برادری کو اپنی ذمہ داری پوری کرنے کی اہمیت پر زور دیا۔

جنوبی لبنان پر اسرائیلی فضائی حملے میں المیادین ٹی وی کی خاتون رپورٹر اور کیمرہ مین شہید

الجزیرہ کے مطابق   اسرائیل کے جنوبی لبنان پر فضائی حملے میں المیادین ٹی وی کی خاتون رپورٹر فرح عمر  اور کیمرہ مین رابیح الماماری سمیت تین صحافی جاں بحق ہوگئے ہیں  ، اسرائیلی فوج نے طیر حرفہ نامی قصبے کے قریب  موجود اخباری مندوبین پر بمباری کر دی ۔ اس حملے میں المیادین ٹی وی کی خاتون رپورٹر فرح عمر  اور کیمرہ مین رابیح الماماری  اور ایک مقامی صحافی  مارے گئے لبنان کے دارالحکومت بیروت سے نشر ہونے والے عالمی ٹی وی چینل المیادین نے اسرائیلی بمباری میں اپنی رپورٹر اور کیمرا مین کی شہادت کی تصدیق کرتے ہوئے اسرائیل کی بزدلانہ کارروائی کی مذمت کی ہے۔المیادین ٹی وی نے 2012 میں اپنی نشریات کا آغاز بیروت سے کیا تھا اور مسلم عرب دنیا میں دیکھے جانے والا مقبول ٹی وی شمار ہوتا ہے۔ اس چینل کو لبنان، اسرائیل، فلسطین اور دیگر علاقوں میں مسلمانوں کی حمایت کرنے پر اسرائیل کی جانب سے دھمکیاں بھی ملتی رہی ہیں۔واضح رہے کہ 7 اکتوبر سے غزہ میں جاری اسرائیل بمباری میں 50 سے زائد صحافی اپنے فرائض کی انجام دہی کے دوران شہید ہوچکے ہیں جب کہ 10 زخمی اور 3 لاپتا ہیں۔ اسی عرصے میں لبنان میں بھی اسرائیلی فوج نے 5 صحافیوں کو نشانہ بنایا ہے۔