سپریم کورٹ میں اضافی کسٹم ڈیوٹی کے معاملہ پر درخواستوں کی سماعت
ٹیکس ریٹ کا تعین کرنا حکومت کاکام ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسی
اسلام آباد( ویب نیوز)
چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ پارلیمنٹ نے ٹیکس لگادیااس کے ریٹ کا تعین کرنا حکومت کاکام ہے، کیا پارلیمنٹ حکومت کوٹیکس لگانے کااختیار دے سکتی ہے کہ نہیں،نیا ٹیکس لگانا پارلیمنٹ جب کہ شرح میں اضافہ حکومتی اختیارہے،کون ایس آراوبناتا ہے یا ڈرافٹ کرتا ہے، ایل ڈی سی یا چیئرمین ایف بی آر؟چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میںجسٹس امین الدین خان اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل تین رکنی بینچ نے شوگر ملوں اوردیگرصنعتی یونٹس پر وفاقی حکومت کی جانب سے 2007میں نافذ کی گئی ایک فیصد اضافی کسٹم ڈیوٹی کے معاملہ پر سندھ ہائی کورٹ اور لاہورہائی کورٹ کے فیصلوں کے خلاف کمشنر ان لینڈ ریونیو اوردیگر کی جانب سے دائر17 درخواستوں پر سماعت کی. دوران سماعت چیف جسٹس نے کمشنر ان لینڈ ریونیو کے وکیل مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ چلیئے پلیز دلائل شروع کریں ہم انتظارکررہے ہیں، سیلز ٹیکس، انکم ٹیکس یہ کیا ایشو ہے۔ اس پر وکیل کا کہنا تھا کہ 3-Aکے زریعہ ایک فیصد اضافی اسپیشل ڈیوٹی درآمدی اشیاء اور ملک میں تیار ہونے والی مخصوص اشیاء پر لگائی گئی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اسے 2011میں ختم کیوں کیا گیا۔ اس پر وکیل کا کہنا تھا کوئی پتا نہیں کیوں ختم ہوئی، یہ حکومت کا فیصلہ تھا۔ چیف جسٹس وکیل کومخاطب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ہر فقرے کے ساتھ مائی ،مائی لارڈ نہ کریں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کس چیز پر ڈیوٹی لگائی ، ہمیں خود ڈھونڈنا پڑے گا۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ ایس آراودکھادیں۔ وکیل کا کہنا تھا کہ سیکشن 3کے علاوہ سیکشن 3-Aمیں ایک فیصد اضافی ڈیوٹی لگائی گئی۔ چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا یہ پراپرایس آراوہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کیا وفاقی حکومت اتنی قابل ہے کہ ایک ایس آراوٹیکس لگانے اورایک استثنیٰ دینے کا جاری کیا۔ کون ایس آراوبناتا ہے یا ڈرافٹ کرتا ہے، ایل ڈی سی یا چیئرمین ایف بی آر؟ ۔اس پر وکیل کا کہنا تھا کہ بورڈ نوٹیفیکیشن بناتا ہے۔وکیل کا کہنا تھا کہ ملوں کی جانب سے ٹیکس اداکردیا گیا ہے اوراب ریکورٰ مانگ رہے ہیں، سندھ ہائی کورٹ نے فیصلے میں ریفنڈ کا حکم دیا جس کے بعد ایک مل نے اداشدہ رقم واپس لے لی ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یہ ایک فیصد ٹیکس چارسال ان فیلڈ رہا۔ وکیل کا کہنا تھا کہ چارکیسز میں شوکازنوٹس جاری ہوا اورآرڈر بھی جاری ہوا۔ ایڈیشنل کنٹرولر ان لینڈ ریونیو عبدالواحد شر نے پیس ہوکر بتایا کہ چار کیسز سپریم کورٹ میں زیر التوا ہیں اوران کیسز میں رقم ریکور کرنی ہے۔ وکیل کا کہنا تھا کہ میں نے تصدیق نہیں کی کہ رقم اداہو گئی کہ نہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ادائیگی ہو گئی کہ نہیں۔مدعا علیحان کے وکیل سابق اٹارنی جنرل بیرسٹر خالد جاوید خان نے عدالت کو بتایا کہ سی اے 918/2018ایم ایس پاکستان بیوریجز لمیٹڈ کے کیس میں ریفنڈ ہو گیا ہے۔ سرکاری وکیل کا کہنا تھا کہ یہ کوئی نیا ٹیکس نہیں بلکہ یہ اضافی ٹیکس تھا، پاکستان میں درآمد ہونے والی اورپاکستان میں پیدا ہونے والی مختلف اشیاء پر ایک فیصد اضافی ٹیکس لگایا، وفاقی حکومت کواختیاردیا گیا کہ ایک فیصد اضافی ٹیکس لگائے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ کے ایک رکنی بینچ کے جج کا نام کیا تھا اور پھر دورکنی بینچ کے ججز کا نام کیا تھااورسندھ ہائی کورٹ کے دورکنی بینچ کے ججز کا کیا نام تھا۔ اس پر بتایا گیا کہ لاہور ہائی کورٹ کاایک رکنی بینچ سپریم کورٹ کے سابق جسٹس شیخ عظمت سعید پر مشمتل تھا جبکہ دورکنی بینچ سابق چیف جسٹس آف پاکستان عمرعطابندیال اور جسٹس اسد منیر پر مشتمل تھا، جبکہ سندھ ہائی کورٹ کا بینچ سپیرم کورٹ کے موجودہ جج منیب اختر اورجسٹس غلام سرورکورائی پر مشتمل تھا۔ اس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ان ججز میں سے ایک سپریم کورٹ کے جج، ایک سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے طور ریٹائرڈ ہوئے جبکہ اس وقت بھی سپریم کورٹ کے جج ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سندھ ہائی کورٹ نے کس بنیاد پر ٹیکس کے نفاذ کو کالعدم قراردیا۔ اس پر خالد جاوید خان کا کہنا تھا کہ دومختلف بنیادوں پر سندھ ہائی کورٹ نے فیصلہ دیا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اگر نیا ٹیکس لگایا تویہ پارلیمنٹ کا دائرہ اختیار ہے اور اگر ٹیکس کی شرح میں اضافہ کیاتویہ حکومت کااختیارہے۔ کیا یہ ایڈیشنل ڈیوٹی ہے یا ایڈیشنل ٹیکس ریٹ ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اگر سیکشن3-Aکا اضافہ نہ کرتے اورسیکشن 3میں بھی اضافہ کردیتے توکرسکتے تھے۔ اس موقع پر مدعا علحان کے سینیٹر بیرسٹر محمد فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ یہ آزادانہ چارجنگ سیکشن ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہمیں اس حوالہ سے مطمئن کریں کہ یہ الگ لیوی ہے۔ اس پر فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ یہ نئی چیز ہے ، اسکیم الگ ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ نے ٹیکس لگادیااس کے ریٹ کا تعین کرنا حکومت کاکام ہے۔ اس پر خالد جاوید خان کا کہنا تھا کہ منی بل کے زریعہ پارلیمنٹ ٹیکس کی شرح کا تعین کرتی ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کیا پارلیمنٹ حکومت کوٹیکس لگانے کااختیار دے سکتی ہے کہ نہیں۔ سرکاری وکیل کا کہنا تھا کہ 9جون کو ایس آراوجاری ہوا جو یکم جولائی سے نافذ ہونا تھا۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ خالد جاوید خان جب اٹارنی جنرل تھے توبڑے تحمل سے بات کرتے تھے۔ اس پر چیف جسٹس نے خالد جاوید سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ اب یہ نہ کہہ دینا کہ جب آپ وکیل تھے توآپ بھی بڑے تحمل سے بات کرتے تھے۔ چیف جسٹس نے سماعت کا حکمنامہ لکھواتے ہوئے کہا کہ 16درخواستیں ان لینڈ ریونیو جبکہ ایک شاہ تاج شوگر مل کی جانب سے دائر کی گئی ہے۔ سندھ ہائی کورٹ اور لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے ایک دوسرے سے متضاد ہیں۔سیکشن3-Aکی تشریح کا معاملہ ہے، یہ سیکشن 2007میں شامل کیا گیا تھا۔ چیف جسٹس کاکہنا تھاکہ کتنے مدعا علیحان کو اکٹھا کیا گیا ٹیکس واپس اداکردیا ہے اس حوالہ سے آئندہ سماعت پر آگاہ کیا جائے۔ وکلاء اپنا تحریری بیان بھی آئندہ سماعت سے قبل جمع کروادیں۔ عدالت نے وکلاء کی مشاورت سے کیس کی مزید سماعت 6دسمبر تک ملتوی کردی۔ چیف جسٹس نے رجسٹرارآفس کو ہدایت کہ اُس روز کوئی اوراہم کیس ان کے بینچ میں نہ لگایا جائے۔ZS